احتمال موجود رہتا ہے،جب کہ قول کی حیثیت قانون کلی کی ہوتی ہے،اسی طرح تعارض کی صورت میں احادیث متواتر کو خبرواحد پر ترجیح دیا کرتے تھے، امام صاحب احادیث کے ہوتے ہوئے کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے؛بلکہ احادیث پر ہی عمل فرماتے تھے ؛چنانچہ امام موفق نے مناقب ابی حنیفہ میں ابو حمزہ سکری کا وقیع قول نقل کیا ہے :
إذا جاء الحدیث عن النبي لم نحد عنہ إلی غیرہ وأخذنا بہ وإذا جاء عن الصحابۃ تخیرنا وإذا جاء عن التابعین زاحمناہم ۔(۱)
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث ہمارے سامنے آتی ہے تو ہم کسی اورطرف نہیں دیکھتے؛بلکہ اسی کو لے لیتے ہیں اورجب صحابہ کے اقوال ملتے ہیں تو جن کا قول کتاب وسنت کے زیادہ قریب ہوتا ہے اس کو اختیارکر لیتے ہیں او تابعین کے قول میں مزاحمت کرتے ہیں۔
امام صاحب او راتباع حدیث
امیر المومنین فی الحدیث عبد اللہ بن مبارک امام صاحب کا اتباع حدیث ان الفاظ میںبیان کرتے ہیں :
وإذا جاء الحدیث عن رسول اللہ فعلی الرأس والعین وإذا جاء عن الصحابۃ اخترنا ولم نخرج من أقوالہم وإذا جاء عن التابعین زاحمناہم ۔(۲)
جب حضور کی کوئی حدیث سامنے آجائے تو سر آنکھوں پر اور اگر صحابہ سے کوئی روایت ہو تو اس کو اختیار کرتا ہوں جو قرآن حدیث سے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) موفق احمد مکی، مناقب ابی حنیفہ :۱؍۷۱، دارالکتاب العربی بیروت ۱ ۸ ۹ ۱ ء
(۲) موفق احمد مکی، مناقب ابی حنیفہ ۱؍۷۱، دارالکتب العربی بیروت ۱۹۸۱ء