اسی شخص نے پھر کہا امام محمد کے بارے میں کیا فرماتے ہیں مزنی فرمانے لگے وہ تفریعات میں سب سے فائق ہیں، وہ بولا اچھا تو زفرؒ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ امام مزنی نے کہا وہ قیاس میں سب سے ماہر ہیں۔(۱)
ان کا زمانہ طالب علمی تین ادوار پر مشتمل تھا، پہلے دور میں انہوں نے حفظ قرآن کے بعد اس کی قرأت اور تفسیر قرآن میں مہارت حاصل کی، دوسرے دور میں احادیث کا علم نامور محدث تابعین سے حاصل کیا اور اس میں درجہ کمال حاصل کیا، تیسرے دور میں آپ امام صاحب کی خدمت میں فقہ حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوئے اور اس میں اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر جو تبحر حاصل کیا وہ انہی کا حصہ تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ امام ابو حنیفہؒ کے بعدان کی حلقہ درس کے جانشیں ہوئے ، ان کے بعد مسند تدریس امام ابویوسف کے حصہ میں آئی، بصرہ کا عہدۂ قضاء بھی ان کو ملا؛ لیکن فقہ حنفی میں ان کی کوئی تصنیف نہیں، اس لیے عموماً امام محمدؒ کے بعد ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے، امام زفر نے بے شمار فروع کے علاوہ بعض اصول میں بھی امام ابو حنیفہ سے اختلاف کیا ہے، اسی وجہ سے بعض اہل علم انہیں المجتہدالمنسب کے بجائے مجتہد مطلق قرار دیتے ہیں، جب کہ اختلافی آراء کے بارے میں ان کا اپنا قول یہ ہے ما خالفت أبا حنیفۃ فی قول إلا وقد کان أبو حنیفۃ یقول بہ میں نے کسی قول میں ابو حنیفہ کی مخالفت نہیں کی، مگر یہ کہ ابو حنیفہ بھی وہی کہا کرتے تھے۔(۲)
قاسم بن معنؒ (م ۱۷۵ھ)
کوفہ کے مدرسہ فقہ کے بانی، مشہور صحابی عبد اللہ بن مسعود کے پڑ پوتے ہیں، فقہ پر کافی عبور حاصل تھا اور عربیت وادب میں اپنی نظیر نہ رکھتے تھے، امام محمدؒ نے اپنی کتابوں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) حیاتِ امام ابو حنیفہ ص:۳۰۳ (۲) الجواہر المضیئۃ ۱؍۲۴۴، میر محمد، کتب خانہ کراچی