میںپہونچ گئے ،امام صاحب نے فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو دھوبی کا مسئلہ لایا ہے ، ابویوسف نے عرض کیا جی ہاں،امام صاحب نے فرمایا سبحان اللہ جو شخص اس لئے بیٹھا ہو کہ لوگوں کو فتوی دے ، اس کام کے لئے حلقۂ درس جما لیا،اللہ کے دین میںگفتگو کرنے لگا اور اس کا مرتبہ یہ ہے کہ اجارہ کے ایک مسئلہ کا صحیح جواب نہیں دے سکتا ،امام ابو یوسف نے عرض کیا حضرت صحیح جواب بتا دیجئے ؟امام صاحب نے فرمایا اگر اس نے دینے سے انکار کے بعد دھویا تو اجرت کا استحقاق نہیں ہے ، کیونکہ اس نے اپنے لئے دھویا ہے اوراگر غصب سے پہلے دھویا تھا تو اس کو اجرت ملے گی ،اس لئے کہ اس نے مالک کے لئے دھویا تھا۔(۱)
ابن ابی لیلی کی چھ غلطیاں
حسن بن زیاد لؤلؤی کہتے ہیںکہ میرے گھر کے قریب ایک پاگل عورت رہتی تھی، جس کا نام ام عمران تھاایک آدمی اس کے قریب سے گزرا اور اس سے کچھ کہا ،اس پرپاگل عورت نے کہا یا ابن الزانیین(اے دو زنا کرنے والوں کے بیٹے )اتفاق سے قاضی ابن ابی لیلی نے سن لیا ،انہوں نے حکم دیا کہ اس کو پکڑلاؤ ،ابن ابی لیلی نے اس کو مسجد میں داخل کرا کر دو حدیں لگوائیں ایک ماںپرتہمت لگانے کی ،دوسرے باپ پر تہمت لگانے کی ،امام صاحب کو معلوم ہو ا تو فرمایا ابن ابی لیلی نے اس فیصلے میں چھ غلطیاں کی ہیں،اول یہ کہ وہ مجنونہ تھی اورمجنونہ پر حد نہیں ہے ،دوسری یہ کہ مسجد میں حد لگوائی اور حدود مسجد میںنہیں لگائی جاتی ،تیسری غلطی یہ کی کہ اسے کھڑی کرکے حد لگوائی جب کہ عورتوں پرحد بٹھا کر لگائی جاتی ہے ،چوتھی یہ کہ اس پر دو حدیں لگوائی جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی پوری قوم پر تہمت لگائے تواس پر ایک ہی حد لگائی جاتی ہے ،پانچویں غلطی یہ کی کہ حد لگانے کے وقت اس آدمی کے ماں،باپ موجود نہیں تھے ، حالانکہ ان کا حاضر ہونا ضروری تھا ،چھٹی غلطی یہ کی کہ دونوں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) تذکرۃ النعمان ص:۲۲۳