میں ان کے نام اور کنیت دونوں سے روایت کیا ہے، قاضی شریک بن عبد اللہ کے بعد کوفہ کے قاضی مقرر ہوئے۔(۱)
علم حدیث میں بھی اونچا مقام حاصل تھا، صحاحِ ستہ کے مصنفین نے ان سے روایت کی ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ کو ان سے خاص محبت تھی،یہ بھی منجملہ ان لوگوں کے ہیں جن کی نسبت امام صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ’’تم لوگ میرے دل کی تسلی اور میرے غم کو مٹانے والے ہو‘‘ ان کو بھی امام صاحب کے ساتھ نہایت عقیدت اور خصوصی تعلق تھا، ایک شخص نے پوچھا کہ آپ فقہ وعربیت دونوں کے امام ہیں ان دونوں علموں میں وسیع کونسا علم ہے؟ فرمایا کہ واللہ ابو حنیفہؒ کی ایک تحریر کل فن عربیت پر بھاری ہے، آپ کوفہ کے قاضی رہے، مگر معاوضہ نہیں لیتے تھے۔(۲)
عافیہ بن یزید (م ۱۸۰ھ)
فن حدیث میں بلند مقام پر فائز تھے، امام نسائی ،ابو داؤد اور یحییٰ بن معین وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے، بغداد کے قاضی تھے، خطیب نے لکھا ہے کہ عافیہ عالم وزاہد تھے، ایک مدت تک قاضی رہے پھر قضاء سے مستعفی ہوگئے۔(۳) امام صاحب کے مخصوص تلامذہ میں سے تھے اور آپ کے شورائی کمیٹی کے اہم رکن تھے، امام صاحب ان کا بہت خیال کرتے؛ بلکہ ان کی رائے کے بغیر کچھ بھی دستوری کتاب میں تحریر نہ کیا جاتا تھا،صیمری نے اسحاق بن ابراہیم کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ:
ابو حنیفہؒ کے تلامذہ کسی مسئلہ میں غور وخوض کرتے اور اس وقت عافیہ نہ ہوتے تو امام صاحب فرماتے اس کو ابھی مت لکھو اور جب عافیہ آتے اور سب کے رائے سے اتفاق کرتے تو امام صاحب فرماتے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) اخبار ابی حنیفہ واصحابہ،ص ۱۵۰ (۲) سیرۃ النعمان،ص:۲۳۰ (۳) سیر اعلام النبلاء۷؍۳۹۸