فقہ حنفی میں قیاس کی حیثیت
اگر کوئی مسئلہ کتاب اللہ میںنہ ملے ، احادیث رسول اللہ بھی اس سے خالی ہو، صحابہ کے اقوال میںبھی اس کا حل موجود نہ ہو اوراجماع امت کی بھی اس پر نظر نہ پڑی ہو تو ایسی مشکل صورت حال میں امام صاحب اس غیر منصوص مسئلے کو کسی علت کی وجہ سے منصوص مسئلے کے ساتھ لاحق کردیتے ہیں جس کو اصطلاح شرع میں قیاس کا نام دیا جاتا ہے، قیاس امام صاحب انتہائی مجبوری میںکرتے ہیں جبکہ مسئلے کا حل منصوص علیہ ادلہ میںتلاش بسیار کے باوجود نہ مل سکے ؛ لیکن کتاب وسنت کا اہتمام والتزام اس درجہ غالب ہے کہ اگر کوئی مسئلہ قیاس سے مستنبط کیا اور پھر اس مسئلہ کی دلیل احادیث و آثارمیں مل گئی تو فوراً اپنی قیاس کو چھوڑ کر حدیث کو اختیار فرمالیتے ہیں ، علامہ ابن القیم نے اعلام الموقعین میں قیاس کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کرنے کی بہت سی مثالیں بیان کی ہیں لکھتے ہیں :
فقدم ابو حنیفۃ حدیث القہقہۃ في الصلاۃ علی محض القیاس وأ جمع أہل الحدیث علی ضعفہ وقدم حدیث الوضوء بنبیذ التمر علی القیاس وأ کثر أہل الحدیث یضعفہ وقدم حدیث ’’ أ کثر الحیض عشرۃ أیام ‘‘ وہو ضعیف باتفاقہم علی محض القیاس وقدم حدیث ’’ لا مہر أقل من عشرۃ دراہم‘‘ واجمعوا علی ضعفہ بل بطلانہ علی محض القیاس۔(۱)
ابو حنیفہ نے نماز میں قہقہہ لگانے سے وضو کے ٹوٹ جانے کی حدیث کو مقدم کیا ہے قیاس پر ( یعنی قیاس کا تقاضہ یہ تھا کہ نماز میں قہقہہ لگانے سے وضو نہ ٹوٹے مگر حدیث ضعیف کی وجہ سے قیاس کو ترک
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) ابن القیم، ابوعبداللہ محمد بن ابی بکر، اعلام الموقعین۱؍۳۸، دارالکتب العربی بیروت ۱۹۹۶ء