یحییٰ بن معین کا قول ہے کہ کوفہ میں ثوری کے بعد یحییٰ بن ابی زائدہ سے زیادہ کوئی اثبت نہیں تھا، ابن ابی حاتمؒ سے منقول ہے کہ کوفہ میں سب سے پہلے یحییٰ بن ابی زائدہؒ نے کتاب لکھی ۔ عجلی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن ابی زائدہ مدائن کے قاضی تھے ، علامہ لکھنوی لکھتے ہیں کہ کوفہ کے حفاظ محدثین اور صاحب مسند میں اُن کا شمار ہوتا تھا(۱) وکیع نے اپنی کتابوں کو یحییٰ بن ابی زائدہ کی کتاب کی ترتیب پر مرتب کیاتھا،۱۸۲ھ یا ۱۸۳ھ میں مدائن میں ان کا انتقال ہوا۔(۲)
یوسف بن خالد سمتی (م ۱۸۹ھ)
آپ امام صاحب کی شوریٰ کے رکن تھے اور طویل مدت تک امام صاحب کی صحبت میں رہ کر آپ کے خرمن فیض سے خوشہ چینی کرتے رہے، یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے بصرہ میں امام صاحب کی فقہ کو رائج کیا،امام ابو یوسف جب قاضی القضاۃ کی حیثیت سے ہارون رشید کے ہمراہ بصرہ تشریف لے گئے تو اس موقع پر وہ اپنے ہم مجلس دوست سے ملاقات کے لئے ان کے پاس تشریف لے گئے، امام ابو یوسف کے آنے پر لوگوں کو علم ہوا کہ یہ کتنے بڑے فقیہ اور محدث ہیں، امام بخاری، شیخ علی بن المدینی، ہلال بن یحییٰ جیسی عظیم المرتبت محدثین نے ان سے کسب فیض کیا، ابن ماجہ نے اپنی سنن میں ان کی مرویات شامل کی ہیں۔(۳) امام صاحب ان سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کو رخصت کرتے وقت امام صاحب نے ایک وصیت نامہ تحریر کرکے دیا تھا جو امام صاحب کے وصایا میں شامل ہے، اخیر عمر میں زہد وتقشّف کی زندگی بسر کی، قیاس میں بہت ماہر تھے؛ لیکن علم حدیث میں کوئی نمایاں مقام نہ تھا۔(۴)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) الفوائد البہیئہ ص: ۲۲۴ (۲) تہذیب التہذیب۱۱؍۲۰۹
(۳) الجواہر المضیئہ۲؍۲۲۷ (۴) اخبار ابی حنیفہ واصحابہ، ص :۱۵۰