حضرت عمرؓ نے بھی اپنے زمانۂ خلافت میں فقہی مسائل کے حل کے لیے ایک شوریٰ تشکیل دی تھی اور جب بھی کوئی مسئلہ پیش آتا تو مدینہ کے فقہاء صحابہ کو جمع کرکے تبادلہ خیال فرماتے اور اجتماعی طور پر کوئی فیصلہ فرماتے،حضرت زید بن ثابت نے سلمہ بن مخلد کو جو نصیحت کی ہے اس سے ان کا شورائی نہج معلوم ہوتا ہے، انہوں نے فرمایا اگر کوئی مسئلہ کتاب وسنت میں نہ ملے تو اہل رائے کو بلاؤ اوراجتماعی اجتہاد اور کوشش کرکے فیصلہ کرو(۱)علامہ ابن القیم نے بھی اپنی تصنیف اعلام الموقعین(۲) میں حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کے اس شورائی منہج کو تفصیل سے بیان کیا ہے، فقہی مسائل کے حل کے سلسلہ میں حضرات صحابہؓ میں زید بن ثابتؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا اور تابعین میں عمر بن عبد العزیز، مروان بن الحکم، اور فقہاء سبعہ مدینہ کا بھی شورائی منہج تھا۔(۳)
مجلس شوریٰ کی جامعیت
حضرت الاستاذ حمادؒ کے انتقال کے بعد کوفہ کی مسند جب امام صاحب کے سپرد کی گئی تو باوجود یکہ امام صاحب علمِ حدیث کے امام اور فقہ کے استاذ الاساتذہ تھے،اجتہاد میں اعلیٰ مقام پر فائز تھے، اور اس باب میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے، پھر بھی اس وادی غیر ذی زرع اور لق ودق میدان میں تنہا طبع آزمائی کرنا مناسب خیال نہ کیا اور اپنے ممتاز تلامذہ کو بھی کارِ اجتہاد میں شریک کیا، اور اس طرح حضرت الامام نے حضراتِ شیخینؓ کی سنت کو زندہ کیا، اس نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں مسائل کے حل کے لیے اجتماعی سعی کی جاتی ہے اور اجتماعی سعی انفرادی کوشش سے بہر حال افضل ہے، اگر چہ یہ طریقہ بھی معصوم عن الخطاء نہیں ہے؛ لیکن انفرادی کوشش کی بہ نسبت اس طریقۂ اجتہاد میں غلطی کا امکان کم ہے، اس پر مستزاد یہ کہ اجتماعیت میں جو قوت ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، اسی لیے جب امام المحدثین
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) السنن الکبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر:۲۰۳۴۵
(۲) ج: ۱، ص:۶۸ ، دارالکتاب العربی بیروت (۳) المصباح۱؍۱۱۵