لئے عام انسانوں کی گردنیں اڑا دینا عام معمو ل تھا ،پورا عالمِ اسلام بنو امیہ کے خوں چکاں مظالم سے تھرا رہا تھا ،حضورﷺکے محبوب نواسوں اورآپ کے خاندان کے پیاسوں کو فرات کے ساحل پر شہید کر دیا گیا تھا ،صدیق اکبرؓ کے نواسے عبداللہ بن زبیر کو بیت اللہ کے چوکھٹ پر خاک وخون میں تڑپادیا گیا تھا،یزید، ابن زیاد ،حجاج بن یوسف کو کھلا کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا تھا،اس سلسلہ میں سب سے قابلِ رحم حالت مولد ابی حنیفہ کوفہ کی تھی،اس شہر میں ابن زیاد پھر حجاج کی تلواریںبیکسوں پر لٹکتی رہی ،عراق کے گورنر ابن ہبیرہ کے ہاتھوں نے چھ لاکھ لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی ،ایسی صورت حال میں لوگوں کابے چین ہونا ،انسانی جانوں پر ہورہے اس بھیانک ظلم سے متاثر ہونا ایک فطری امر تھا ،پھر امام ابوحنیفہ جن کے دل میں امت محمدیہ کا بے پناہ درد تھا،جیسا کہ سلم بن سالم کا بیان ہے میںنے بڑے بڑے علماء سے ملاقاتیں کیں ،لیکن رسول اللہ کی امت کے احترام کا جذبہ جتنا شدید ابو حنیفہ کے دل میںپایااس کی نظیر کہیں نہیں ملی (۱) ایسی صورت حال میں ظالم حکام کے ظلم سے امام صاحب کس قدر بے چین ہوتے ہونگے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
ظالم حکومت کے خلاف علم بغاوت
جب حکومت کا ظلم وستم عام ہوجائے اور احترام انسانیت کو بالائے طاق رکھکر مظالم کی حد کردی جائے ایسی صورت حال میں علماء امت کی کیا ذمہ داری ہے،اس حکومت پر نکیر فرض ہے یا نہیں ،ایسی حکومت کے خلاف خروج کرنا ظلم ہے یا عدل ،تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں علماء امت کا دو گروہ تھا ،ایک محدثین کا گروہ تھا جن کا مسلک یہ تھا کہ حکومت جن لوگوں کے ہاتھ میں چلی جائے ، خواہ کسی بھی ذریعہ سے ان کے ہاتھوں پہونچی ہو،لیکن جب وہ اقتدار کے مالک ہو گئے تو ان کے مقابلہ میں کچھ کہنا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) مناقب للموفق ص:۲۴۸