حسن بن عمارہ(م۱۵۳ھ)
امام صاحب کے زمانہ میں قاضی اور بڑے عابد، زاہد تھے، امام صاحب کی وفات پر انہوں نے ہی غسل دیا تھا اور نماز جنازہ پڑھائی تھی اور بڑی حسرت و افسوس کا اظہار کیا تھا، خطیب نے عبد اللہ بن مبارک سے روایت کی ہے کہ میں نے حسن بن عمارہ کو امام ابو حنیفہ کے رکاب پکڑے ہوئے امام صاحب کو خطاب فرماکر یہ کہتے ہوئے سنا اللہ کی قسم آپ سے زیادہ بلیغ، غوروفکر کرنے والا اور حاضر جواب کسی کو نہیں پایا، بیشک آپ اپنے وقت کے تمام فقہاء کے سردار ہیں، اور یہ بات یقینی ہے اور جن لوگوں نے آپ پر طعن کیا ہے وہ سراسر حسد کی وجہ سے کیا ہے۔ (۱)
سفیان بن عیینہ(۱۰۷ھ/۷۲۵ء=۱۹۸ھ/۸۱۴ء)
مشہور محدث ہیںامام بخاری،امام حمیدی کے استاذ اورامام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں، ان کے متعلق امام شافعی فرماتے ہیں اگر مالک اورسفیان بن عیینہ نہ ہوتے تو علم حجاز سے ختم ہوجاتا وہ امام صاحب کے متعلق فرماتے ہیں دو چیزیں ایسی تھیں کہ ابتداء میں جن کے متعلق یہ خیال تھا کہ کوفہ کے پل سے آگے نہ بڑھ سکیں گی، حمزہ کی قرأت اور امام ابو حنیفہ کا فقہ ،مگر یہ دونوں آفاق میں پہونچ چکی ہیں۔(۲)
و ہ فرماتے ہیں میری آنکھ نے امام ابو حنیفہ جیسا شخص نہیں دیکھا(۳)امام ابو حنیفہ علم حدیث میں اعلم الناس تھے۔(۴)
امام ابو یوسف(۱۱۳ھ-۷۳۱/۱۸۲-۷۹۸ء)
ابوحنیفہ کے خاص شاگرد، خلافت عباسیہ کے قاضی القضاۃ تھے، فن حدیث میں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) عقود الجمان ص:۲۰۴ (۲) تاریخ بغداد ۱۳؍۳۴۶
(۳) عقود الجمان ص:۱۹۲ (۴) الخیرات الحسان ص:۳۳