مقصد ہی ان حضرات کی خدمت کرنا تھا ورنہ حضرت امام زہدوتقویٰ اور استغنائیت کے جس مقام پر فائز تھے ان کو تجارت اور معیشت کو وسیع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، عبد الرحمن دوسی کا بیان ہے کہ امام صاحب اپنے فرزند حماد سے کہتے کہ روزانہ دس درہم کی روٹی خرید کر آس پڑوس اور دروازے پر آنے والے محتاجوں پر صدقہ کردیا کرو (۱) حسن بن زیاد کا بیان ہے کہ امام صاحب کی مجلس میں ایک شخص پراگندہ حالت میں تھا جب مجلس ختم ہوئی تو امام صاحب نے اس کو روک لیا اور فرمایا کہ مصلی اٹھاؤ اور اس کے نیچے جو ہے تم لے لو اور اپنی حالت کو درست کرلو، اس مصلی کے نیچے ایک ہزار درہم تھا اس شخص نے کہا میں تو مال دار ہوں مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ،تو امام صاحب نے فرمایا کیا تمہیں یہ حدیث معلوم نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی نعمت کا اثر اپنے بندوں پر دیکھنا پسند کرتے ہیں، تمہیں چاہئے کہ اپنی حالت کو بدل لو تاکہ تمہارا دوست تم سے دھوکہ نہ کھائے۔(۲)
امام صاحب کی سخاوت کا عجیب واقعہ
امام صاحب کے بعض سوانح نگاروں نے امام صاحب کی فیاضی اور حسن سلوک کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ کوفہ میں ایک شخص پہلے خوش حال تھا ؛لیکن زمانہ کی گردش نے اسے افلاس اور قحط سالی تک پہونچادیا، لیکن و ہ شخص غیرت وحمیت کی دولت سے ابھی بھی مالدار تھا عسرت کی زندگی گزاررہا تھا؛لیکن کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے قاصر تھا، ایک دن اس کی چھوٹی بچی تازہ ککڑیوں کو دیکھ کر چلاتی ہوئی گھر آئی اور ماں سے ککڑی لینے کے لئے پیسے مانگی؛ لیکن افلاس اس حد تک پہونچا ہوا تھا کہ ماں بھی ککڑی خریدنے کے لئے پیسے نہ دے سکی، لڑکی کا باپ اس تماشے کو دیکھ رہا تھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور طے کیا کہ کسی سے امداد حاصل کرنی چاہئے، چنانچہ وہ امام صاحب کی ’’مجلس برکت‘‘ میں حاضر ہوا جہاں سے ہر آدمی دنیوی، مادی یا روحانی کچھ نہ کچھ نفع لے کر ہی اٹھتا تھا، لیکن اس شخص نے کبھی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) موفق احمد مکی، مناقب ابی حنیفہ ۱؍۲۳۸) (۲) مناقب ابی حنیفہ ۱؍۲۳۵، اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ص: ۴۷