علامہ ذہبی نے آپ کے اساتذہ حدیث میں اِن حضرات کاتذکرہ کیا ہے ، عطاء بن ابی رباح، عکرمہ، نافع، عدی بن ثابت، عطیہ العوفی، عبد الرحمن بن ہرمز، عمروبن دینار، سلمہ بن کہیل، قتادہ بن دعامہ، ابو الزبیر، منصور اور ابو جعفر محمد بن علی بن حسین(۱) اس طرح امام صاحب نے حضرت حماد سے عبد اللہ بن مسعود کا علم،حضرت عطاء اور حضرت عکرمہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس کا علم اور حضرت نافع سے حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت عمر کا علم حاصل کیا، گویا آپ صحابہ میں حضرت عمر، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت ابن عباس کے علوم کے جامع تھے، آپ پر بالخصوص حضرت عبد اللہ ابن مسعود کے علم کی گہری چھاپ تھی(۲) علامہ ابن القیم نے اعلام الموقعین میں لکھا ہے کہ امت مسلمہ میں دین، فقہ اور علم اصحاب ابن مسعود، اصحاب زید بن ثابت، اصحاب عبد اللہ بن عمر اور اصحاب عبد اللہ بن عباس کے ذریعہ منتقل ہوا، اہل مدینہ کاعلم اصحاب ِزید بن ثابت اور اصحاب ِابن عمر سے ہے، مکہ کا علم اصحاب ِابن عباس سے ہے اور اہل عراق کا علم اصحاب ِابن مسعود سے ہے۔(۳)
امام صاحب کے شیوخِ حدیث
امام صاحب سے اللہ تعالیٰ کو جو عظیم خدمت لینی تھی اس کے لئے حدیث کے سرمایہ کی بہت ضرورت تھی،اس لئے امام صاحب نے طلب حدیث کے لئے بہت اسفار کئے، کوفہ میں کوئی بھی محدث نہیں تھا جن سے امام صاحب نے استفادہ نہ کیا ہو، اسی طرح بصرہ کے تمام شیوخِ حدیث سے آپ نے علمی پیاس بجھائی تھی، کوفہ اور بصرہ کے علاوہ آپ نے متعدد بار حرمین شریفین کا سفر کیا اور بنو امیہ کے آخری دورمیں آپ نے سات سال تک
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) مناقب ابی حنیفہ وصاحبیہ للذہبی ص: ۱۹
(۲) محمد ابوزہرہ، ابو حنیفہ حیاتہ وعصرہ ص: ۷۸، دارالفکر العربی بیروت
(۳) ابن القیم، ابو عبد اللہ محمد بن ابی بکر،اعلام الموقعین ۱؍۲۸، دارالکتب العربی بیروت ۱۹۹۶ء