ا مام صاحب جیسے بااثر شخص پر ہاتھ ڈالنا آسان نہ تھا ،اسے معلوم تھا کہ ایک حسین کے قتل نے بنی امیہ کے خلاف مسلمانوںمیں کتنی نفرت پیدا کردی تھی ،اوراسی وجہ سے ان کو اقتدار سے کتنی آسانی سے اکھاڑکرپھینکا گیا،منصور ایسی غلطی دہرانا نہیں چاہتا تھا، وہ بھی سیاسی تدبر میں فن کار کی حیثیت رکھتاتھا،اس لئے اس نے امام صاحب کو مارنے کے بجائے سونے کی زنجیروں میں باندھ کراپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا زیادہ بہتر خیال کیا ،اسی نیت سے منصور نے بار بار امام صاحب کو عہدہ قضاء پیش کیا،بلکہ سلطنت عباسیہ کا قاضی القضاۃمقرر کرنے کی پیش کش کی مگر امام صاحب طرح طرح کے حیلوں سے ٹالتے رہے ،آخر کار جب منصور بہت زیادہ مصر ہوا تو امام صاحب نے ایک مرتبہ نرم انداز میں معذرت کرتے ہوئے فرمایا ’’قضاء کے لئے وہ شخص موزوں ہے جو اپنے اندر اتنی جان رکھتا ہو کہ آپ پر ،آپ کے شہزادوں پر ،اور سپہ سالاروں پر قانون نافذ کر سکے ،اور مجھ میں وہ جان نہیں‘‘منصور کے بار بار اصرار پر ایک مرتبہ سخت لہجے میںمنصور کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا’’مجھ پر بھروسہ تم کو نہ کرنا چاہئے میں اگر خوشی سے بھی اس عہدہ کو قبول کرلوں جب بھی آپ کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے خلاف بھی فیصلہ دینے کا موقع میرے سامنے آگیا اور مجھے یہ دھمکی دی گئی کہ اس فیصلہ سے باز آجاؤ یا دریا فرات میں تمہیں غرق کردیاجائے گاتو میں کہے دیتا ہوں کہ فرات میں ڈوب مرنے کو قبول کروںگا،لیکن فیصلہ بدلنے پر راضی نہیں ہوسکتا ،اور جب رضامندی سے عہدہ قبول کرنے پر میرا یہ حال ہے ،تو اسی سے اندازہ کرلیجئے کہ زبردستی اگر مجھے قاضی بنایا گیا تو اس وقت غصہ کی حالت میں جو کروںگا وہ ظاہر ہے ‘‘(۱)
عدلیہ کے تعلق سے امام صاحب کی رائے
اس طرح کے متعدد واقعات تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہیں ،جس سے قضاء اور عدلیہ کے تعلق سے امام صاحب کا نقطہ نظر بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ،عدلیہ کے متعلق ان کی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) مناقب موفق مکی ۲؍۱۷۱