کے موافق ہے تو امام صاحب کہتے أنا عالم بعلم أہل الکوفۃ میں کوفہ والوں کے علم کو زیادہ جانتا ہوں۔(۱)
کوفہ علم حدیث کا بڑا مرکز تھا، وہاں ابن عیینہ، سفیان ثوری، حفص بن غیاث، اعمش، وکیع، ابن المبارک،جیسے جبال العلم محدثین تھے، اور امام صاحب تمام محدثین کی تمام احادیث کے حافظ تھے،امام صاحب کوئی بھی مسئلہ عام طور پر احادیث کی روشنی میں ہی بیان کرتے تھے، اسی لئے امیر المؤمنین فی الحدیث عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں:
لا تقولوا رأي أبي حنیفۃ بل قولوا إنہ تفسیر الحدیث یہ مت کہو کہ ابو حنیفہ کی رائے ہے؛ بلکہ کہو کہ یہ حدیث کی تفسیر ہے۔(۲)
امام صاحب کے عمل بالحدیث کے التزام اور استدلال بالحدیث کے اہتمام کا اندازہ ان کتابوں سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں امام صاحب کے اقوال مروی ہیں، مثلا امام محمد کی کتب ستہ یعنی ظاہر الروایت اسی طرح کتب نوادر، امام ابویوسف کے امالی وغیرہ، ان کتابوں کا اگر منصفانہ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اکثر مسائل اشارۃ یا صراحتا احادیث کے موافق ہیں،بلکہ بیشتر مسائل تو حدیث کے الفاظ ہیں جس پر امام صاحب نے شدت احتیاط کی بنا پر قال الرسول نہیں کہاہے۔
امام صاحب کی وحدانیات
علم حدیث میں سند کا مقام سب سے بلند ہے، عبد اللہ بن مبارک کا بیان ہے الاسناد من الدین(۳) کہ اسناد بھی دین میں سے ہے، اگر اسناد کا یہ مبارک سلسلہ نہ ہوتا تو جو شخص چاہتا اور جو چاہتا کہہ دیتا، احادیث میں اسی اسنادی حیثیت کی وجہ سے علو ا سناد کو
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) الخیر ات الحسان ص: ۶۹ (۲) مناقب للموفق۲؍۱۱۶
(۳) صحیح مسلم، باب فی ان الاسناد من الدین ۱؍۱۴