سے چاند نظر نہ آئے تو کتنے فاصلہ کی رؤیت ،اطراف پر مؤثر ہوگی وغیرہ وغیرہ مسائل کی طرف اشارے سے اندازہ ہوگا کہ نماز، روزہ جیسے خالص عبادتیاتی مسائل میں بھی علوم طبعیہ سے کس قدرمدد لینے کی ضرورت ہے ، کاروبار،تجارت، معاہدات، آبپاشی، صرافہ، بنک کاری وغیرہ کے سلسلے میں قانون سازی میں کتنے علوم کے ماہروں کی ضرورت نہ ہوگی؟ امام ابو حنیفہ ہر علم کے ماہروں کو ہم بزم کرنے اور اسلامی قانون یعنی فقہ کو ان سب کے تعاون سے مرتب مدون کرنے کی کوشش میں عمر بھر لگے رہے اور بہت کچھ کامیاب ہوئے۔(۱)
بحث ومباحثہ
مجلس شوریٰ میں جب بھی کوئی مسئلہ پیش کیا جاتا تو تمام اراکین کھل کر بحث ونقد میں حصہ لیتے اور ہر ایک کو احادیث وآثار اور اجماع وقیاس کی روشنی میں آزادانہ نقد وتبصرہ کا موقع دیا جاتا، مجلس کا ہر ہر فرد آزادی کے ساتھ اپنی دلیل امام صاحب کے سامنے پیش کرتا اور امام صاحب ہر ایک کی دلیل صبر وضبط سے سنتے رہتے، بسا اوقات ان کی آواز بھی بلند ہوجاتی اور دورانِ بحث بعض اراکین خود امام صاحب سے جو صدر مجلس اور سب کے استاذ بھی ہوتے، اختلاف کربیٹھتے اور یہاں تک کہہ دیتے کہ’’آپ کی فلاں دلیل غلط ہے‘‘ بعض اجنبی لوگ امام صاحب سے کہتے کہ: آپ اتنی بے باکی سے بات کرنے والوں کو کیوں نہیں روکتے؟ تو امام صاحب فرماتے کہ: میں نے خود ان کو آزادی دی ہے اور ان کو اس امر کا عادی بنایا ہے کہ کسی سے مرعوب نہ ہوں اور یہ لوگ ہر ایک کے حتی کہ میرے دلائل پر نکتہ چینی کریں تاکہ صحیح بات بالکل منقح ہوکر سامنے آجائے۔(۲)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) ڈاکٹر محمد حمید اللہ، پیش لفظ، امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی ص :۲۶، مکتبہ الحق ممبئی
(۲) معجم المصنفین،ص:۱۷۴، مناقب ابی حنیفہ للموفق ۱؍۲۵۱