روایت کی ہے اور یحی بن معین نے ان کی توثیق کی ہے، قیاس، استخراج کے علاوہ حدیث کی معرفت میں ماہرانہ حیثیت کے مالک تھے۔
ہلال رازی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ ہارون رشید مکہ معظمہ گیا، طواف سے فارغ ہوکر وہ کعبہ میں داخل ہوا اور ایک جگہ بیٹھ گیا تمام اہل دربار کھڑے تھے، مگر ایک شخص ہارون رشید کے برابر بیٹھا تھا مجھ کو بہت تعجب ہوا لوگوں سے دریافت کیا تو معلوم ہوا اسد بن عمرو ہیں، امام نسائی نے انہیں ا صحاب ابی حنیفہ میں سے ثقہ رواۃ میں شمار کیا ہے۔(۱)
علی بن مسہر (م ۱۸۹ھ)
علی بن مسہر حدیث و فقہ میں مہارت تامہ رکھتے تھے، امام صاحب کے ارشد تلامذہ میں شمار ہوتے تھے، تدوین فقہ کی خصوصی کمیٹی کے بھی رکن تھے، موصل کے قاضی تھے، اعمش اور ہشام بن عروہ سے استفادہ کیا، ابو بکر ابن ابی شیبہ نے ان سے روایت کی ہے، بخاری ومسلم نے ان کی روایت سے حدیثیں نقل کی ہیں، یحی بن معین نے ثقہ قرار دیا ہے، امام احمد نے ان کی یہ کہتے ہوئے تعریف کی یہ فقہ وحدیث کے جامع ہیں، کہا جاتا ہے کہ انہیں کے واسطہ سے سفیان ثوری امام صاحب کی کتابیں لیا کرتے تھے، جب کہ امام صاحب نے اس سے ان کو منع بھی کیا تھا۔(۲)
حبان بن علی ا لکوفی (م ۱۷۲ھ)
حدیث وفقہ کے علاوہ فصاحت وبلاغت میں بہت اونچے مرتبے پر فائز تھے، حجر بن عبد الجبار کہتے ہیں میں نے حبان سے زیادہ بہتر اور افضل کوئی فقیہ کوفہ میں نہیں دیکھا، یحی بن معین کہتے تھے کہ حبان اپنے بھائی مندل سے زیادہ ذہین تھے اور دونوں بھائی سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ابن ماجہ نے ان کی مرویات نقل کی ہیں آپ امام صاحب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) الجواہر المضیئہ ۱؍۱۴۱ (۲) الجواہر المضیئہ ۱؍۳۷۸