کے ذریعہ حدیث کا بہت بڑا ذخیرہ آپ نے محفوظ کرلیا تھا، حتی کہ جب آپ کوفہ میں حضرت حماد کے جانشین مقرر ہوئے اور کوفہ کی درس گاہ کو رونق بخشی اس زمانہ میں اگر کوئی محدث کوفہ آتا تو امام صاحب اپنے شاگردوں کو ان کے پاس بھیجتے کہ دیکھو ان کے پاس کوئی ایسی حدیث تو نہیں ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے اور جب جب کوفہ میں کسی محدث کی تشریف آوری ہوتی تو امام صاحب اس طرح شاگردوں کو بھیجتے تھے۔(۱)
امام صاحب کے اساتذہ وتلامذہ
کسی بھی محدث کا اصل مقام ومرتبہ ان کے اساتذہ وتلامذہ کی تعداد اور ان کی علمی وعدالتی حیثیت سے معلوم ہوتا ہے، امام صاحب کے اساتذہ جن سے امام صاحب نے علم حدیث حاصل کیا ہے اکثر تابعین ہیں، حافظ ابن حجر مکی’’الخیرات الحسان‘‘ میں لکھتے ہیں:
امام صاحب نے چار ہزار ائمہ تابعین سے استفادہ کیا ہے اسی لئے حافظ ذہبی نے آپ کا شمار حفاظ حدیث میں کیا ہے پس جو شخص امام صاحب کی طرف قلت روایت کو منسوب کرتا ہے یہ یاتو تساہل ہے یا حسد اس لئے کہ لا تعداد مسائل کا استنباط بغیر معرفت حدیث کے کیسے ہوسکتا ہے، جب کہ امام صاحب پہلے شخص ہیں جنہوں نے دلائل کی روشنی میں مخصوص طریقہ پر مسائل کومستنبط کیا ہے۔(۲)
عبد اللہ بن داؤد کہتے ہیں میں نے امام صاحب سے دریافت کیا کہ آپ نے بڑوں میں سے کن کن کا فیض اٹھایا ہے تو آپ نے کہا:
قاسم،سالم،طاؤس، عکرمہ، مکحول، شعبی،عبد اللہ بن دینار، حسن بصری،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) موفق احمد مکی، مناقب ابی حنیفہ ۱؍۷۶، دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۸۹ء
(۲) ابن حجر المکی، شیخ شہاب الدین احمد بن حجر۔الخیرات الحسان ص:۶۸، مطبع السعادہ بجوار محافظ مصر