ابو القاسم بن کاس روایت کرتے ہیں کہ مسعر بن کدام نے فرمایا ہم نے حدیث ابو حنیفہ کے ساتھ حاصل کی تو وہ ہم پر غالب آگئے، ہم نے ترک دنیا کو اپنایا تو اس میں بھی فوقیت لے گئے، اس کے بعد ان کے ساتھ فقہ حاصل کی تو فقہی کمال تمہارے سامنے ہی ہے(۱) صیمری نے مسعر بن کدام سے نقل کیا ہے کوفہ میں صرف دو آدمیوں پر رشک کرتا ہوں، ابو حنیفہ پر ان کی فقہ میں، حسن بن صالح پر ان کے زہد میں۔ (۲)
اسرائیل بن یونس (م ۱۶۰ھ)
اسرائیل بن یونس صحاح ستہ کے ایسے راوی ہیں جن کی امام احمد ثقۃ ثبتکے الفاظ سے توثیق کرتے ہیں، و ہ امام صاحب کی محدثیت کی شہادت دیتے ہوئے کہتے ہیں نعمان بن ثابت کتنے بہترین انسان تھے، ان تمام احادیث کے بہترین حافظ تھے جس سے کوئی فقہی مسئلہ نکلتا ہو اور تمام احادیث احکام کے واقف کار تھے۔(۳)
حسن بن صالح (م۱۶۷ھ)
حسن بن صالح امام اور حافظ حدیث ہیں، رجال صحیح میں ان کا شمار ہوتا ہے، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں، وہ فرماتے ہیں امام ابو حنیفہ ناسخ ومنسوخ کی بہت زیادہ جستجو کرنے والے تھے، اہل کوفہ کی احادیث کے بڑے عالم تھے، جن احادیث پر لوگوں کا عمل تھا ان کی بہت زیادہ پیروی کرنے والے تھے۔(۴)
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ کوفہ اس زمانے میں علم کا مرکز تھا، محدثین کی بڑی جماعت وہاں موجود تھی، جیسے ابن عیینہ، سفیان ثوری، حفص بن غیاث، اعمش، وکیع، ابن المبارک وغیرہ اور امام صاحب ان تمام حضرات کی احادیث کے حافظ تھے، بھلا امام صاحب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) عقود الجمان ص:۲۰۰ (۲) عقود الجمان ص:۲۰۰
(۳) شیخ حبیب احمد کیرانوی۔ مقدمہ اعلاء السنن ۲۱؍۲۵، مکتبہ اشرفیہ دیوبند ۲۰۰۰ء، تاریخ بغداد ۱۳؍۳۵۰
(۴) مقدمہ اعلاء السنن ۲۱؍۲۵