سعید قطان جیسے عظیم محدث کہتے ہیں: ’’لا نکذب واللہ ما سمعنا أحسن رأیا من رأي أبي حنیفۃ وقد أخذنا بأکثر أقوالہ (۱) خدا کی قسم میں نے ابو حنیفہ کی رائے سے بہتر رائے نہیں سنی میں نے ان کے بہت سے ا قوال کو لیا ہے، حضرت وکیع جیسے امامِ وقت بھی امام صاحب کے قول پر فتویٰ دیتے تھے؛ لیکن ہر دور میں کچھ ناعاقبت اندیش افراد نے فقہ حنفی کو ہدف ملامت بنایا ہے اور ہر دور کے محقق اور منصف مزاج علماء نے اس کا منصفانہ اور محققانہ جواب دیا ہے، آج ایک مخصوص مکتب فکر کی جانب سے امام ابو حنیفہ کی بے داغ شخصیت کو داغ دار کرنے اور ان کے فقہی استنباطات کوقرآن وحدیث کے مخالف قرار دینے اور فقہ حنفی سے لوگوں کے اعتماد کو متزلزل کرنے کی ناروا کوشش کی جارہی ہے اور نہ صرف کوشش کی جارہی ہے بلکہ ایک ناپاک سازش کے تحت فقہ حنفی سے لوگوں کو بے زار کرکے سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان وعمل پر حملے کئے جارہے ہیں، صاف شفاف خالی الذہن عوام کو باور کرایا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ علم حدیث میں طفل مکتب بھی نہ تھے، علم حدیث میں ان کا مبلغ علم کل سترہ حدیثیں تھیں، انہوں نے تمام مسائل قیاس کی مدد سے اختراع کئے ہیں، اور قیاس ہی ان کے مستنبط مسائل کی اصل مأخذ ہے(نعوذ باللہ) امام ابو حنیفہ قرآن وحدیث پر قیاس کو ترجیح دیتے تھے وغیرہ ذلک۔
پیش نظر مقالے میں واضح کیا گیا ہے کہ علم حدیث میں حضرت الامام کا مرتبہ کیا ہے، امام صاحب کے متعلق محدثین کی کیارائے ہے اور فقہ حنفی میں احادیث کی حیثیت کیا ہے؟
امام صاحب اور طلب حدیث
امام صاحب کو ابتداء سے ہی حدیث کی حد درجہ طلب تھی، چنانچہ انہوں نے کوفہ کے تمام محدثین کی ا حادیث کو جمع کرلیا تھا، اسی طرح بصرہ ا ور حرمین شریفین کے متعدد اسفار
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) تاریخ بغداد ۱۳؍۳۴۵