صحیح فرمایا (۱) چنانچہ آپ کا معمول یہ تھا کہ آپ ا یسے گستاخوں کو معاف فرمادیتے تھے، آپ کا قول ہے اہل علم میں سے کسی نے میرے متعلق کچھ کہا اور وہ چیز میرے اندر نہیں ہے تو وہ غلطی پر ہے اور علماء کی غیبت تو کچھ نہ کچھ ان کے بعد بھی رہتی ہے۔(۲)
تلامذہ کے ساتھ حسن سلوک
امام صاحب کے درس میں بہت آزادانہ ماحول ہوا کرتا تھا، ہر طالب علم کو اعتراض کرنے اور دلائل پر تبصرہ کرنے کی کھلی آزادی تھی، آپ اپنے تلامذہ کو تقلید پیشہ متعلم نہیں بنانا چاہتے تھے، بلکہ ایک مناظر کی حیثیت میں دیکھنا پسند کرتے تھے، شیخ ابو زہرہ نے لکھا ہے کہ امام صاحب اپنے تلامذہ میں تین باتوں کا خاص خیال رکھتے تھے۔
(۱) تلامذہ کی مالی امداد کرتے اور گردش ایام میں ان کا ساتھ دیتے جس کو شادی کی ضرورت ہوتی اور مالی وسائل نہ رکھتا ہوتا تو اس کی شادی کرادیتے، ہر شاگرد کی ضروریات کی کفالت فرماتے تھے۔
(۲) تلامذہ کی کڑی نگرانی کرتے جب کسی میں احساس علم کے ساتھ کبر ونخوت کے آثار دیکھتے اس کو زائل فرمادیتے اور یہ باور کراتے کہ وہ ہنوز دوسروں سے استفادہ کا محتاج ہے، ایک مرتبہ امام ابو یوسف کے جی میں آیا کہ اب انہیں الگ حلقہ درس قائم کرنا چاہئے، امام صاحب نے اپنے ایک ساتھی سے کہا ابو یوسف کی مجلس میں جاکر یہ مسئلہ پوچھو کہ صورت ذیل میں آپ کیا فرماتے ہیں، ایک شخص نے ایک دھوبی کو دو درہم کے عوض ایک کپڑا دھونے کے لئے دیا، پھر اس نے کپڑا مانگا ، دھوبی نے انکار کیا وہ پھر دوبارہ آیااور کپڑے کا مطالبہ کیا، دھوبی نے کپڑا دھوکر اس کے حوالے کردیا، اس صورت میں کیا دھوبی اجرت کا استحقاق رکھتا ہے؟ اگر ابو یوسف اثبات میں جواب دیں تو آپ کہیں غلط ہے اور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) علامہ یوسف بن صالح دمشقی، عقود الجمان ص: ۲۷۰
(۲) امام اعظم ابو حنیفہ ص :۷۴، مفتی عزیز الرحمن بجنوری