دوسری فصل
امام ابو حنیفہؒ عبد اللہ ابن مبارک کی نظر میں
عبد اللہ ابن مبارک کا شمار امیر المؤمنین فی الحدیث میں ہوتا ہے، محدث نووی نے ان کا ذکر ان لفظوں میں کیا ہے، وہ امام جس کی امامت وجلالت پر ہر باب میں عموما اجماع کیا گیا ہے، جس کے ذکر سے خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے، جس کی محبت سے مغفرت کی امید کی جاتی ہے(۱) ان کی ولادت ۱۱۸ھ میںاور وفات رمضان ۱۸۱ھ میں ہوئی، ان کی پوری زندگی جہاد، حج اور تجارت سے لبریز ہے، امام ابو حنیفہ کے خاص تلامذہ میں ان کا شمار ہوتا ہے، ’’الفوائد البہیہ‘‘ میں علامہ لکھنوی نے لکھا ہے کہ امام صاحب نے عبد اللہ ابن مبارک سے ان کے دین کی طرف رجوع اور علم کی طرف اشتغال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ ا پنے ساتھیوں کے ساتھ باغیچہ میں تھے اور رات تک کھاتے پیتے رہے،میں ستار وسارنگی کا بڑا گرویدہ اور عاشق تھا، اسی ستاروسارنگی کو بجاتے ہوئے ہمیں نیند آگئی، اور میں نے خواب میں ایک پرندہ دیکھا جو یہ پڑھ رہا تھا الم یأن للذین آمنوا أن تخشع قلوبہم لذکر اللہ ومانزل من الحق۔(۲) یہ سنتے ہی میں نے کہاکیوں نہیں؟ پس میں بیدار ہوا اور اپنے ستار کو توڑ دیا، یہیں سے میرے زہد فی الدنیا کی ابتدا ہوئی۔(۳)
عبد اللہ بن مبارک کو اللہ تعالیٰ نے علم حدیث میں بڑا اونچا مقام عطا فرمایا تھا،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) نووی، محی الدین یحی بن شرف، تہذیب ا لاسماء اللغات ۱؍۲۸۵، دارالکتب العلمیہ بیروت
(۲) الحدید:۱۶ (۳) عبد الحی اللکھنوی،الفوائد البہیہ فی تراجم الحنفیہ ص:۱۰۳، مکتبہ خیر کثیر کراچی