والوں کو تبع تابعین کہا گیا، پھر مختلف قسم کے لوگ پیدا ہوئے اور ان کے مراتب میں فرق پڑ گیا،تب ان خواص لوگوں کو جنہیں دین کے کام میں زیادہ توجہ تھی زاہد، عابد کہا گیا، پھر بدعت ظاہر ہوگئی اورمختلف فرقوں کے مدعی پیدا ہوگئے،ہر ایک فریق نے دعویٰ کیا کہ ہم زاہد ہیں تب اہل سنت کے خاص لوگوں نے جو خدا کے ساتھ اپنے نفسوں کی رعایت رکھنے والے اور اپنے دلوں کی ،غفلتوں کے آنے سے حفاظت کرنے والے تھے اس نام کو چھوڑ کر اپنا نام اہل تصوف رکھا اور دوسری صدی ہجری کے ختم ہونے سے پہلے ہی ان بزرگوں کے لئے یہ نام شہرت پاگیا۔(۱)
تصوف کی اصطلاح کب رائج ہوئی
عہد صحابہ میں تصوف کی روح اور حقیقت، یعنی زہد وتقویٰ،انابت الی اللہ، عاجزی وانکساری وغیرہ روحانی اور باطنی صفات تو پائے جاتے تھے، لیکن اس لفظ کا استعمال عہد صحابہ تک نہیں تھا، حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری نے ابو الحسن بوشنجہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ
تصوف موجودہ زمانے میں صرف ایک نام ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں اور گذشتہ زمانے میں ایک حقیقت تھی جس کا کوئی (مخصوص) نام نہ تھا یعنی صحابہ کرام اور سلف صالحین کے وقت میں لفظ صوفی تو بیشک نہیں تھا ؛لیکن اس کی حقیقی صفات ان میں سے ہر ایک میں موجود تھیں اور آج کل یہ نام تو موجود ہے ؛لیکن اس کے معنی موجود
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) روح تصوف اردو ترجمہ الرسالۃ القشیریہ مترجم محمد عرفان خان بیگ نوزی ص: ۲۷،دارالعرفان سرسید نگر علی گڑھ