امام ابویوسف کی تنبیہ
خطیب بغدادی نے محمد بن سلمہ سے اور ابو عبد اللہ صیمری نے فضل بن غانم سے روایت کی ہے کہ امام ابو یوسف بیمار ہوگئے تو امام صاحب نے ان کی متعدد بارعیادت کی ، آخری بار جب عیادت کے لئے تشریف لے گئے تو ان کو بہت کمزور پایا تو انا للہ پڑھا اور فرمایا تمہارے بارے میں توقع ہے کہ تم میرے بعد مؤمنین کے لئے موجود رہوگے اور تمہاری موت کی مصیبت مؤمنین پر آئی تو تمہارے ساتھ علم کا بڑا ذخیرہ ضائع ہو جائیگا۔
ایک روایت یہ ہے کہ امام صاحب نے فرمایا اگر نوجوان مر گیا تو کوئی نہیں ہے جو اس نوجوان کی جگہ پر کر سکے ،یہ خبر امام ابو یوسف کو پہونچ گئی،ادھر اللہ کے فضل سے شفاء ہو گئی تو دل میںعُجب پیدا ہوگیا اورامام ابو یوسف نے علم فقہ کی الگ مجلس قائم کرلی اور امام صاحب کی مجلس میںجانا چھوڑدیا لوگوں کی توجہ ان کی طرف بھی ہوگئی ،امام صاحب نے ان کے بارے میںلوگوں سے معلومات کیں تو لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنا حلقہ ء درس قائم کر لیا ہے ،امام صاحب نے ایک آدمی کو بلایا اور فرمایا کہ ابو یوسف کی مجلس میںجاؤ اور معلوم کرو کہ ایک آدمی نے دھوبی کو دو درہم کے عوض کپڑا دھونے کے لئے دیا کچھ دنوںکے بعد جب دھوبی کے پاس کپڑا لینے گیا تو دھوبی نے کپڑے کا ہی انکار کردیا اور کہا تمہاری کوئی چیز میرے پاس نہیں ہے ،وہ آدمی واپس آگیا پھر دوبارہ اس کے پاس گیا اور اپنا کپڑا طلب کیا تو دھوبی نے دھلا ہوا کپڑا واپس اسے کردیا اب دھوبی کو اجرت ملنی چاہئے یا نہیں ؟اگر وہ کہیں ہاںملنی چاہئے تو کہنا آپ سے غلطی ہوگئی اور کہیںاس کو اجرت نہیںملنی چاہئے تو بھی کہنا غلط ،وہ آدمی امام ابویوسف کی مجلس میں گیا اور مسئلہ معلوم کیا،امام ابو یو سف نے فرمایا اجرت واجب ہے اس آدمی نے کہا غلط ۔امام ابویوسف نے غور کیا پھرفرمایا اس کو اجرت نہیںملنی چاہئے ، اس آدمی نے پھر کہا غلط۔امام ابو یوسف فوراًاٹھے اور امام صاحب کی مجلس