ایک اہم نام قتادہ کا ہے بہت بڑے محدث اور مشہور تابعی تھے،حضرت انس بن مالک، عبد اللہ بن سرجس،ابو الطفیل اور دیگر صحابہ سے حدیثیں روایت کیں، حضرت انس کے مشہور شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں، ان کی قوت حافظہ کی ایک عجیب مثال کتابوں میں مذکور ہے، عمروبن عبد اللہ کا بیان ہے کہ یہ مدینہ میں سعید بن المسیب سے فقہ وحدیث پڑھتے تھے، ایک دن انہوں نے سوال کیا’’تم ہر روز بہت سی باتیں پوچھتے ہو تم کو ان میں سے کچھ یاد بھی ہے؟‘‘ انہوں نے کہا ایک ایک حرف یاد ہے، چنانچہ جس قدر ان سے سنا تھا تاریخ اور دن کی صراحت کے ساتھ بیان کرنا شروع کردیا، و ہ نہایت تعجب سے پوچھنے لگے، خدا نے دنیا میں تم جیسے لوگ بھی پیدا کئے ہیں‘‘ اسی وجہ سے ان کو احفظ الناس کہا جاتا تھا، امام صاحب نے بصرہ میں ان سے بھی استفادہ کیاتھا،ان کے علاوہ بصرہ کے اساتذہ میں عبد الکریم بن امیہ اور عاصم بن سلیمان احول زیادہ ممتاز ہیں۔ (۱)
حرمین کا سفر
امام صاحب نے کوفہ اور بصرہ کے محدثین سے احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ اخذ کیا تھا، لیکن تکمیل کے لئے حرمین شریفین کا سفر کرنا ضروری تھا، اس لئے کہ یہ مذہبی علوم کے اصل مراکز اور وحی کے نزول کے مقامات تھے، یہاں سے قرآن واحادیث کا تمام ذخیرہ پوری دنیا میں پھیلا اور پوری انسانیت اس سے مستفید ہورہی ہے، امام صاحب نے حرمین کا پہلا سفر کس سنہ میں کیا، قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے،تاہم تاریخ سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حرمین کا سفر تحصیل علم کے آغاز میں کیا تھا، مؤرخ ابن خلکان نے لکھا ہے کہ حضرت وکیع امام ابو حنیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ حج کے ایام میں ایک حجام نے جن سے میں نے بال منڈوائے تھے اس نے پانچ باتوں پر میری گرفت کی،میں نے اجرت پوچھی تو بولا مناسک چکائے نہیں جاتے، اس نے کہا بیٹھ جاؤ، میں قبلہ سے منحرف ہوکر بیٹھ گیا اس
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) شبلی نعمانی، سیرۃ النعمان ص: ۳۳، دارالکتاب دیوبند