چند ممتاز تلامذہ
مختلف سوانح نگاروں نے امام صاحب کے تلامذہ کے نام اور حالات ا ن کے ملکوں اور شہروں کی نسبت کے ساتھ لکھے ہیں، جن میں فقہاء، محدثین، قضاۃ سب شامل ہیں، چند حضرات کے نام یہ ہیں: قاضی ابو یوسف، یعقوب بن ابراہیم، محمد بن حسن شیبانی، زفر بن ہذیل عنبری، حماد بن ابو حنیفہ، حسن بن زیادلولوئی، ابو عصمہ نوح بن ابومریم، زکریا بن ابی زائدہ، مسعر بن کدام، یونس بن ابو اسحاق، داؤد طائی، حسن بن صالح، ابو بکربن عیاش، علی بن مسہر، حفص بن غیاث، عبد اللہ بن مبارک، وکیع بن الجراح، ابو اسحاق فزاری، یزید بن ہارون، مکی بن ابراہیم، حبیب زیات مقری، مصعب بن مقدام، خارجہ بن مصعب، عبید اللہ بن موسیٰ ابراہیم بن طہمان۔(۱)
امام صاحب کا تحمل
امام صاحب نہایت محتاط اور متحمل المزاج تھے، طلبہ کے اعتراضات کو خندہ پیشانی سے سنتے اور مسکرا کر ان کے جوابات دیتے، ایک مرتبہ آپ کے حلقۂ درس میں واعظ عراق جو حسن بصری کے قریبی اور عزیز تھے شریک ہوگئے، امام صاحب نے کسی مسئلہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا أخطأ الحسن حسن بصری سے چوک ہوگئی، اس پر واعظ عراق کو غصہ آگیا اور فورا ہی اٹھ کر کہہ دیا تقول الحسن أخطأ یا ابن الزانیۃ اے حرامی بچے ! تو حسن کو یہ کہتا ہے کہ اس نے خطا کی، بھری مجلس جس میں امام صاحب کے جانثار بیٹھے تھے یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، نہ معلوم کتنے تلامذہ کے خون کھولنے لگے ہوں گے اور کتنوں نے آستین چڑھالی ہوگی، آپ نے سب کو خاموش کیا اور پھر نرمی سے فرمایا واللہ أخطا الحسن وأصاب ابن مسعود خدا کی قسم حسن سے غلطی ہوئی اور ابن مسعود نے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) مبارکپوری، قاضی اطہر،سیرت ائمہ اربعہ ص:۶۷، مکتبہ ادارہ اسلامیات لاہور ۱۹۹۰ء