دوسری فصل
امام ابو حنیفہ اور ان کا فقہی منہج
علوم اسلامی کی اصل و بنیاد قرآن وسنت ہے اورفقہ ، قرآن و حدیث سے ماخوذ ومستفاد احکامات کا وہ ذخیر ہ ہے جسے ’’قانون اسلامی‘‘ اور ’’دستور اسلامی‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے ، عہد صحابہ سے ہی فقہ کی قانون سازی، مسائل کی تنقیح و تخریج اور اجتہادو استنباط کا سلسلہ شروع ہوچکاتھا، لیکن باضابطہ تدوین کا آغاز عہد تابعین میں شروع ہوا اور دو صدی کے عرصے میں دس سے زائد مذاہب مدون و مرتب ہوکر منصہ شہو دپر جلوہ گر ہوئے، جس میں ائمہ اربعہ کے علا وہ امام اوزاعی (م ۱۵۷)سفیان بن سعید بن مسروق(م ۱۶۰) امام لیث بن سعد(م ۱۷۵) سفیان بن عیینہ (م ۱۹۸) ابو داؤد ظاہری(م ۲۷۰) اسحاق بن راہویہ (م ۲۳۸)کے مذاہب مشہور ہیں، لیکن پانچویں صدی سے قبل ہی اکثر مذاہب کا سورج غروب ہوگیا، ان کے متبعین و مقلدین ناپید ہوگئے اور مرور ایام کے ساتھ ان مذاہب نے اپنا وجود ہی کھو دیا، صرف بعض مجتہدین کے مذاہب نقل و بیان کی حد تک باقی رہ گئے، لیکن جن مجتہدین کی فقہ کو بقا ودوام حاصل ہوا اور جن کی فقہ پر ایام طلوع سے آج تک منجانب اللہ عمل جاری وساری ہے وہ ائمہ اربعہ ۔امام اعظم ابو حنیفہؒ (م ۱۵۰) امام مالک ؒ (م ۱۷۹) امام شافعی (م ۲۰۴) امام احمد بن حنبل ؒ(م ۲۴۱)کے مذاہب ہیں اوراس میں بھی اولیت و مرجعیت ، امتیاز وتفوق ، بلندی وبرتری امام ابو حنیفہ کی فقہ کو ہی حاصل ہے اس لیے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ باقی تینوں فقہیں جو اس وقت رائج ہیں فقہ حنفی سے ہی ماخوذ ومستفاد ہیں۔