مکہ میں قیام کیا، اسی طرح آپ ہر سال حج کیا کرتے تھے اور عالم اسلام کے محدثین سے اخذ فیض کیا کرتے تھے، اسی وجہ سے آپ فن حدیث میں بلند مقام پر فائز تھے، متعدد اصحاب سوانح نے آپ کے شیوخ حدیث کی تعداد چار ہزار بتائی ہے،فن حدیث میں آپ کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کی مرویات میں احادیات ، ثنائی اور ثلاثی روایتیں موجود ہیں، بخاری شریف کی ۲۲ ثلاثیات میں ۲۰ ثلاثیات آپ کے شاگردوں کے واسطے سے مروی ہیں، علامہ ذہبی نے ا پنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں امام صاحب کی مدح کا آغاز ان الفاظ میں کیا ہے، ابو حنیفہ،ترمذی اور نسائی کے راوی،الامام فقیہ ملت اسلامیہ،عراق کے عالم،ابو حنیفہ ا لنعمان: آگے امام ابوحنیفہ کے محدثین واساتذہ کرام میں چالیس معتبر ومعتمد ائمہ کرام کے اسماء گرامی ذکرکرنے کے بعد تحریر کیا ہے کہ ان کے علاوہ بھی بہت سے مشائخ سے احادیث سنیں۔
استاذ سے اختلاف
امام صاحب نے اگر چہ کوفہ کے بہت سے اساتذہ سے اکتساب فیض کیا؛لیکن زیادہ تر استفادہ انہوں نے حضرت حماد بن ابی سلیمان سے کیا تھا، اسی وجہ سے انہیں حماد کی جانشینی کا بھی شرف حاصل ہوا، فقہ حنفی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور یہ سبق امام صاحب کو ان کے استاذ سے ملا تھا اور بعد میں دیگر فقہاء احناف کا یہ مزاج باقی رہا، ایک دفعہ امام صاحب اپنے استاذ حماد کے ساتھ سفر میں تھے، عصر کی نماز کا وقت قریب آگیا اور پانی کہیں دستیاب نہیں تھا، حضرت حماد نے تیمم کرکے نماز پڑھی اور امام صاحب نے نماز کو وقت ِمستحب تک کے لئے مؤخر کردیا، آگے چل کر پانی مل گیا تو امام صاحب نے وضو کیا اور نماز ادا کی، امام صاحب کافرمانا تھا کہ جس آدمی کو آخری وقت ِمستحب تک پانی ملنے کی امید ہو اس کو نماز مؤخر کرنی چاہئے، حماد نے امام صاحب کے اجتہاد کی تعریف کی۔ یہ امام صاحب کا استاذ سے پہلا اختلاف تھا اور پہلا ہی اجتہاد تھا جو