آپ کے والد ماجد کا انتقال پہلے ہوگیا اور والدہ ماجدہ ۱۳۰ھ تک زندہ رہیں، اس لئے ان کی خدمت کا زیادہ موقع ملا، امام ابو یوسف کا بیان ہے کہ امام صاحب زمانۂ طالب علمی سے ہی اپنی والدہ کی کوئی بات نہیں ٹالتے تھے، حتی کہ عمروبن ذر کی مجلس میں جاتے تو والدہ کو سواری سے لے جاتے(۱) حسن بن زیاد بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام صاحب کی والدہ نے کسی بات کی قسم کھائی اور اس کے متعلق امام صاحب سے مسئلہ پوچھا امام صاحب نے جواب دیا، مگروالدہ مطمئن نہیں ہوئیں اور کہا جب تک زرعہ واعظ سے تم دریافت نہیں کرو گے مجھے اطمنان نہیں ہوگا، امام صاحب والدہ کو لے کر زرعہ واعظ کے پاس گئے اور والدہ نے خود ان سے پوچھا، زرعہ نے تعجب سے کہا کوفہ کا فقیہ آپ کے ساتھ ہے، پھر میں کیا فتویٰ دوں، ا مام صاحب نے زرعہ واعظ کو جواب بتایا پھر زرعہ واعظ نے وہی جواب آپ کی والدہ سے بیان کیا تو آپ کی والدہ راضی اور مطمئن ہوگئیں۔ (۲)
امیرِ کوفہ یزید بن عمرو بن ہبیرہ فزاری نے امام صاحب کے لئے عہدہ قضاء تجویز کیا مگر آپ نے انکار کردیا اس پر ابن ہبیرہ نے امام صاحب کو ایک سو دس کوڑے کی سزادی، آپ کہتے تھے مجھے اس سزا سے اتنی تکلیف نہیں ہوئی جتنی کہ اس حادثہ پر والدہ کے رنج وغم سے ہوئی، والدہ نے کہا نعمان! جس علم کی وجہ سے تم کو یہ دن دیکھنا پڑا اس سے ترک تعلق کرلو میں نے کہا اگر میں اس علم سے دنیا حاصل کرنا چاہتا تو بہت زیادہ حاصل کرلیتا میں نے یہ علم صرف اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لئے حاصل کیا ہے۔(۳)
امام صاحب کے اخلاق وعادات
جعفر بن ربیع کہتے ہیں کہ میں امام ابو حنیفہ کے پاس پانچ سال رہا، مگر میں نے ان سے زیادہ خاموش بیٹھنے والا کسی کو نہیں دیکھا،ولید بن قاسم کا قول ہے کہ امام صاحب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) عقود الجمان ص:۲۷۲ (۲) تاریح بغداد ۱۳؍۳۶۶
(۳) اخبار ابی حنیفہ واصحابہ للصیمری ص:۵۳۔مناقب ابی حنیفہ للموفق ۱؍۲۵۶