شرعاناجائز ہے ،خواہ ان کا طرزعمل کچھ بھی ہو ،مسلمانوں کے مذہب نے ان کواس کا پابند بنایا ہے کہ خاموشی کے ساتھ ان کے آگے سر جھکا دیں (۱)اس کے بالمقابل امام صاحبؒ کا مسلک یہ تھا کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر حکومت کے ساتھ بھی کیا جائیگا اگر زبانی مفاہمت کے ذریعہ حکومت عدل کی طرف رجوع نہ کرے تو مقابلہ کے لئے کھڑا ہونا فرض ہے ،ابراہیم الصائغ خراسان کے بڑے لوگوں میں شمار ہوتے تھے ، انہوںنے جب ابومسلم خراسانی کی ظلم وزیادتی دیکھی تو انہوں نے ظالم حکومت کے خلاف خرو ج کے سلسلے میں امام صاحب سے مشورہ کیا ،اس وقت امام صاحب نے اپنے اسی راے کو ظاہر فرمایا ،ابراہیم الصائغ کے حوالے سے امام صاحب کی طرف منسوب ہے کہ ظالم حکمراں کے سامنے معروف کے امر اور منکر کے نکیر کے لئے جو کھڑ اہوا وہ اور حمزہ بن مطلبؓ دونوں شہدا کے سردار ہونگے ،لیکن امام صاحب ظالم حکومت کے خلاف خروج کے لئے تنظیمی اور اجتماعی قوت کو ضروری قرار دیتے ہیں اور ان سب پر مستزاد یہ کہ اس کے ذریعہ صالح اورمفیدانقلاب لانا ممکن ہو ،امام صاحب کا قول تاریخ میں مذکور ہے:
اگر ایک دو آدمی کھڑے ہونگے تو قتل کر دیے جائیں گے اور مخلوق خدا کے لئے کوئی کام انجام نہ دے سکیں گے البتہ اگر اس کام کی سر انجامی میںکچھ اچھے صالح لوگ مددگار بن جائیں اور ان کا کوئی ایسا سردار ہو جس کے دین پر بھروسہ کیا جا سکتا ہو اور وہ اپنے مسلک سے نہ پلٹے تو اس وقت مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑا ہونا چاہئے ۔(۲)
امام ابوحنیفہ اور حکومت بنو امیہ کی پالیسی
امام صاحب اپنی تجارت وسخاوت ،امانت ودیانت ،علم وفن اور تقوی وطہارت کی وجہ سے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) احکام القرآن للجصاص ۲؍۳۴ (۲) امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی ص: ۲۸۶