نوادرسے تعبیر کیا جاتا ہے۔
امام زفرؒ(۱۱۰ھ-۱۵۸ھ)
کوفہ ان کا مولد ہے، امام صاحب کی شوریٰ کے اہم رکن تھے، قیاس واستنباط میں یدطولیٰ رکھتے تھے، امام صاحب بھی ان کے قیّاس مزاج اور قیاسی واستنباطی مسائل کی تعریف کیا کرتے تھے، ایک موقع پر ان کے بارے میں فرمایا ہو أقیس أصحابي وہ میرے اصحاب میں قیاس میں سب سے زیادہ ماہر ہیں۔
امام صاحب کے دونوں ارشد تلامذہ امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ سے صحبت کے اعتبار سے مقدم تھے، فقہ حنفی میں ان کا درجہ امام ابو یوسفؒ کے ہم پلہ اور امام محمدؒسے زیادہ شمار کیا جاتا ہے، امام زفرؒ کے مرتبہ کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جس کو صیمری نے امام صاحب کے نبیرہ اسماعیل بن حماد کے حوالے سے نقل کیا ہے’’کہ ایک دن امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ میرے ۳۱ شاگرد ہیں ان میں ۲۸ قاضی بن سکتے ہیں اور چھ مفتی بن سکتے ہیں اور دو یعنی ابویوسف اور زفر دونوں گروہ کے استاذ اور مربی بن سکتے ہیں۔ (۱)
اس واقعہ میں امام صاحب نے امام زفر کو اپنے اراکین شوریٰ کا استاذ قرار دیا ہے، امامِ زفر قیاس واجتہاد میں اس درجہ ماہر تھے کہ قیاس ہی ان کی شان وپہچان بن گئی، تاریخ بغداد میں چاروں بزرگوں کا تقابل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
ایک شخص امام مزنی کی خدمت میں حاضر ہوا اور اہل عراق کے بارے میں دریافت کرتے ہوئے امام مزنی سے کہا کہ ابو حنیفہؒ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ مزنی نے کہااہل عراق کے سردار ہیں، اس نے پھر پوچھا: ابو یوسف کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ مزنی بولے وہ سب سے زیادہ حدیث کا اتباع کرنے والے ہیں،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) اخبار ابی حنیفہ واصحابہ،ص:۱۵۲