صرف خز کے تاجر ہی نہیں تھے؛بلکہ خز بافی کا کوئی بڑا کارخانہ کوفہ میں ان کا جاری تھا (۲) کوئی حانوت(شاپ) بھی کوفہ میں خز کی تھی جس سے مال کی فروختگی کا سلسلہ جاری تھا(۳) غلاموں سے بھی مال کی پھیری کراتے تھے (۴) کوفہ سے دور دراز علاقوں مثلا بغداد، نیشاپور، مرو وغیرہ مال بھیجتے تھے اور وہاں سے منگواتے تھے۔(۱)
خز کا مفہوم
امام صاحب کا آبائی کاروبار خز کی تجارت کا تھا، یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ خز کی تھوڑی وضاحت کردی جائے، خزایک قسم کا کپڑا ہے جس کا رواج اسلام کے ابتدائی صدیوں میں بکثرت پایا جاتا تھا، اس کے تانے میں ریشم اور بانے میں مختلف سوت استعمال کیا جاتا ہے اور جس کپڑے کا تانا ریشم اور بانا دوسرے دھاگے کا ہو تو اس کا استعمال جائز ہے، اس لئے یہ کپڑا عہد صحابہ میں کثرت سے رائج تھا،مولانا گیلانی لکھتے ہیں:
جہاں تک کتابوں سے معلوم ہوتا ہے یہ ایک خاص قسم کا کپڑا تھا جس میں مختلف چیزیں مثلا اون یا کتان یاروئی وغیرہ کے دھاگے استعمال کئے جاتے تھے اور تانے میں ریشم کا سوت لگایا جاتا تھا، بعض فقہ کی کتاب میں لکھا ہے کہ خز کسی سمندری جانور کے بال سے تیار ہوتا تھا، بعض زیادہ متقی حضرات خصوصیت کے ساتھ بانے میں بھی ریشم کے استعمال کو ناپسند کرتے تھے، لیکن صحابہ اور تابعین میں جیسا کہ میں نے عرض کیا مشکل ہی سے بجز چند بزرگوں کے کوئی ایسی ہستی ہوگی جو خز استعمال نہ کرتی ہو، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ گرمیوں میں غیر اونی اور جاڑوں میں اونی خز لوگ استعمال کرتے تھے، بڑی بات یہ تھی کہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) گیلانی، مناظر احسن، امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی ص: ۸۸، مکتبہ الحق ممبئی