طرف متوجہ ہوا کہ سنتی ہو، پردہ سے آواز آئی کہ ہاں سنا، اس کے بعد امام صاحب منصور کی طرف مخاطب ہوکر بولے مگر یہ اجازت اس شخص کے لئے خاص ہے جو عدل پر قادر ہو، ورنہ ایک سے زیادہ نکاح کرنا اچھا نہیں، قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ا رشاد ہے: فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً۔(۱) منصور چپ ہوگیا، امام صاحب جب گھر آئے تو ایک خادم پچاس ہزار درہم کی تھیلی لئے حاضر ہوا اور کہا کہ خاتون نے نذر بھیجی ہے اور آپ کی خدمت میں سلام پیش کیا ہے اور آپ کی حق گوئی کی نہایت مشکور ہے، امام صاحب نے روپئے واپس بھیج دئے اور فرمایا جاکر خاتون سے کہنا کہ میں نے جو کچھ کہا کسی غرض سے نہیںکہا بلکہ میرا فرض منصبی تھا۔(۲)
والدہ کی خدمت
امام صاحب کے والدین بہت نیک تھے، تجارتی مشغولیت کے باوجود دینی زندگی بسر کرتے تھے اور اہل علم وفضل سے تعلق رکھتے تھے، آپ کے والد نعمان بن ثابت کو تابعیت کا شرف حاصل تھا، بچپن میں حضرت علی ؓکی زیارت کی اور ان سے دعا لی تھی، حضرت عمروبن حریث مخزومی کے مکان میں ان کی دکان تھی اور صبح وشام ان کی زیارت ہوتی تھی، آپ نے اپنے والد کے ساتھ ۹۶ھ میں حج کی سعادت حاصل کی، اس وقت آپ کی عمر ۱۶ سال کی تھی وہاں آپ نے حضرت عبد اللہ بن حارث بن جزء کی زیارت کی جب تک امام صاحب کے والدین زندہ رہے، ان کی ہر خدمت کے لئے تیار رہتے تھے اور ان کے انتقال کے بعد ان کے لئے ہمیشہ ایصال ثواب اور دعاء مغفرت کرتے تھے، خود بیان کرتے ہیں:
میں نے اپنے نیک اعمال کے تین حصے کئے ہیں،ایک تہائی اپنے لئے ایک تہائی اپنے والدین کے لئے اور ایک تہائی اپنے استاذ حماد بن ابی سلیمان کے لئے ۔(۱)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) النساء:۳ (۲) سیرت النعمان ص: ۵۸، شبلی نعمانی
(۳) الصیمری، ابو عبد اللہ حسین بن علی،اخبار ا بی حنیفہ واصحابہ ص: ۵۳، دارالکتاب العربی بیروت ۱۹۷۶ء