کا معمول تھا، آپ کے ان درسی افادات کا نام ’’کتاب الآثار‘‘ ہے جو دوسری صدی کے ربع ثانی کی تصنیف ہے، محمد بن سماعہ کہتے ہیں کہ امام صاحب نے اپنی تصانیف میں ستر ہزار سے زائد احادیث ذکر کی ہیں اور کتاب الآثار کو چالیس ہزار سے منتخب کیا ہے(۱)کتاب الآثار کے مختلف نسخے امام صاحب کے مختلف شاگردوں کی طرف منسوب ہیں، جس میں زیادہ تر مشہور دو ہیں ایک امام ابویوسفؒ کا جو مولانا ابو الوفاء افغانی کی نفیس تعلیق وتحشیہ کے ساتھ’’لجنۃ احیاء المعارف النعمانیہ حیدرآباد‘‘ کے زیر اہتمام حیدرآبادسے شائع ہوچکا ہے، اس نسخے کی کل مرویات ایک ہزار ستر ہیں، دوسرا نسخہ امام محمد کا ہے یہ بھی مولانا ابوالوفاء افغانی کی سرکردگی میں ان کی قابل قدر تعلیقات کے ساتھ زیور طبع سے آراستہ ہوکر منصہ مشہود پر آچکا ہے اس نسخے کی مرویات میں صرف مرفوع روایت کی تعداد ایک سو بیس ہے جب کہ زیادہ تر آثار صحابہ وتابعین ہیں۔ (۲)
کتاب الآثار کی اہمیت
مشہورمحقق شیخ ابو زہرہ مصری نے کتاب الآثار کے متعلق لکھا ہے کہ یہ کتاب علمی طور پر تین وجہ سے قیمتی ہے، اول یہ کہ امام اعظم ابو حنیفہ کے مرویات کا ذخیرہ ہے، اس کے ذریعہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ امام موصوف نے استخراج مسائل میں احادیث کو کیسے دلائل کے طور پر استعمال کیا ہے، دوم یہ کہ کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ امام موصوف کے یہاں مواقع استدلال میں فتاویٰ صحابہ اور احادیث مرسلہ کا کیا مقام تھا، سوم یہ کہ اس کے ذریعہ تابعین فقہائے کوفہ کے خصوصا اور فقہائے عراق کے عموما فتاویٰ تک رسائی ہوجاتی ہے۔ (۳) کتاب الآثار للامام محمد کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی کا بیان ہے: والموجود من حدیث أبي حنیفۃ مفرداً إنما ہوکتاب الآثار التي رواہا محمد بن
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱ ) مناقب للموفق ۱؍۹۵ (۲) مسند الامام ص: ۸۶ بحوالہ حدیث وفہم حدیث ص:۴۸۳
(۳) حیات امام ابو حنیفہ ص:۲۸۲ ،ترجمہ غلام احمد حریری، مسلم اکیڈمی، سہارنپور