کرتے ہوئے نہیں سنا، تو سفیان ثوری نے کہا: وہ بہت زیادہ سمجھ دار اور ذہین تھے، وہ کوئی ایسی چیز اپنے اوپر مسلط نہیں کرتے تھے جو ان کی نیکیوں کوضائع کردے۔(۱)
امام ابو حنیفہ اخلاقِ حسنہ کے جامع تھے
عبد اللہ ابن مبارک فرماتے ہیں: میں کوفہ گیا اور وہاں کے علماء سے پوچھا کہ تمہارے شہر کے سب سے بڑے عالم کون ہیں؟ تو سبھوں نے کہا: امام ا بو حنیفہ، پھر میں نے دوسرا سوال کیا: لوگوں میں سب سے بڑے عبادت گذار اور سب سے زیادہ علم سے اشتغال رکھنے والے کون ہیں؟ تو تمام حضرات نے فرمایا: ابو حنیفہ، میں مختلف اخلاقِ حسنہ کے بارے میں ایک ایک کرکے پوچھتا رہا، اور لوگ یہی کہتے رہے کہ ہم اِن اخلاق کے ساتھ امام ابو حنیفہ کے علاوہ کسی اور کو متصف نہیں جانتے ہیں۔(۲)
عبد اللہ ابن مبارک کا امام صاحب کو خراجِ عقیدت
عبد اللہ بن مبارک نے نہ صرف یہ کہ آپ کی شاگردی اختیار کی؛بلکہ آخری دم تک آپ کی صحبت میں رہے، بعض لوگوں نے یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ ابن مبارک بعد میں امام صاحب سے الگ ہوگئے تھے، حالانکہ یہ دھوکہ ہے، ابن مبارک اخیر عمر تک آپ کی شاگردی پر فخر کرتے رہے اور وفات کے بعد آپ کی قبر پر آکر آپ کی عظمت اور رفعت شان کا اظہار کیاہے۔
بشر بن عثمان مروزی کہتے ہیں کہ عبد اللہ ابن مبارک بغداد آئے تو لوگوں سے کہا: مجھے امام ابو حنیفہ کی قبر بتلاؤ، تو لوگوں نے بتادی، تو وہ قبر کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا: ابو حنیفہ!ابراہیم نخعی مرے تو انہوں نے اپنا خلیفہ چھوڑا، حماد بن سلیمان مرے تو انہوں نے بھی اپنا خلیفہ چھوڑا، ابو حنیفہ ! تم اس حال میں دنیا سے گئے کہ ا پنا کوئی خلیفہ نہیں چھوڑا، اور یہ کہہ کر بہت روئے۔(۳)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) تاریخ بغداد ۱۳؍۳۶۱ (۲) مقدمہ اعلاء السنن ۲۱؍۱۲، مکتبہ اشرفیہ دیوبند
(۳) تذکرۃ النعمان اردو ترجمہ عقود الجمان، مترجم عبد اللہ بستوی، ۳۳۳، شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند