داؤد طائی (م ۱۸۵ھ)
امام ابو حنیفہؒ کے مشہور شاگرد ہیں اور تدوین فقہ میں امام صاحب کے شریک اور مجلس کے معزز ممبر تھے، علامہ شمس الدین ذہبیؒ نے ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ ۷؍۴۲۲ میں ’’الامام الفقیہ القدوۃ الزاہد‘‘ سے ان کو یاد کیا ہے، فقہ واجتہاد کے امام تھے، امام محمدؒ نے بھی ان سے استفادہ کیا ہے، خاموش مزاج اور بہت کم گو تھے، ’’امام محمدؒ کہتے ہیں: میں داؤد سے اکثر مسئلے پوچھنے جاتا اگر کوئی ضروری اور علمی مسئلہ ہوتا تو بتادیتے ورنہ کہتے بھائی مجھے اور ضروری کام ہیں‘‘(۱)
اخیر عمر میں زہد وقناعت اور دنیا سے بے رغبتی کو ترجیح دی، علامہ صیمریؒ ان کے زہد وتقشف کے واقعات ذکرکرتے ہوئے عمرو بن ذرؒ کا قول نقل کرتے ہیں:’’اگر داؤد الطائی صحابہ میں ہوتے تو ان میں نمایاں ہوتے‘‘ محارب بن دثار کہتے ہیں کہ ’’اگر داؤد الطائی پچھلی امتوں میں ہوتے تو اللہ تعالیٰ قرآن میں ان کا قصہ بیان کرتا‘‘ عبد اللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں: ’’جب داؤد الطائی قرآن پڑھتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جواب سن رہے ہیں‘‘ محمد بن سوید الطائی کہتے ہیں کہ ان کی بزرگی اور فضل وکمال کا یہ عالم تھا کہ جب انہوں نے امام ابو حنیفہؒ کے حلقۂ درس کو ترک کیا تو خود امام صاحب اکثر ان کی زیارت کے لیے آتے تھے۔(۲)
اسد بن عمرو (م ۱۸۸ھ)
امام صاحب کے خاص تلامذہ میں سے ہیں اور چالیس ارکان کے علاوہ جو دس رکنی مخصوص کمیٹی تھی اس کے بھی رکن تھے، یہ پہلے شخص ہیں جن کو امام صاحب کی مجلس تصنیف میں تحریر کاکام سپرد ہوا، بہت بڑے رتبے کے شخص تھے، امام احمد بن حنبل نے ان سے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) اخبار ابی حنیفہ واصحابہ، ص :۱۱۲ (۲) اخبار ابی حنیفہ واصحابہ، ص:۱۱۳ و۱۱۶