اگر نفی میں جواب دیں تو بھی آپ کہیں غلط ہے، وہ آدمی گیا اور امام ابو یوسف سے مسئلہ معلوم کیا،امام ابو یوسف بولے ہاں اسے اجرت دینی ہوگی، اس شخص نے کہا غلط ہے، امام ابو یوسف کچھ سوچ کر بولے وہ اجرت کا مستحق نہیں، و ہ بولا یہ بھی صحیح نہیں ہے، امام ابو یوسف اسی وقت اٹھ کر امام صاحب کی خدمت میں گئے، امام صاحب بولے آپ دھوبی کے مسئلے کے سلسلے میں آئے ہوں گے، امام ابو یوسف نے کہا مجھے یہ مسئلہ سمجھائیے، فرمایا: اگر دھوبی نے یہ کپڑا غصب کرنے کے بعد دھویا تو اسے کوئی اجرت نہیں ملنی چاہئے، کیوں کہ اس نے اپنے لئے دھویا ہے اور اگر غصب کرنے سے پہلے دھویا ہے تو و ہ اجرت کا مستحق ہے، کیوں کہ اس نے یہ کپڑا مالک کے لئے دھویا ہے۔
(۳) آپ تلامذہ کو نصیحت کرتے رہتے تھے، خصوصا ان لوگوں کو جو اپنے وطن جانے و الے ہوتے تھے یا جن کے بڑا بننے کی توقع ہوتی تھی، امام صاحب کی وہ وصیتیں جو انہوں نے یوسف بن خالد الستمی، نوح بن ابی مریم اور امام ابو یوسف کے لئے لکھی ہیں وہ بہت ہی قابل قدر ہیں۔
الغرض امام صاحب اپنے تلامذہ کو دوستوں کی طرح رکھتے تھے اور انہیں اپنی عزیز ترین متاع حیات دینے سے گریز نہ کرتے تھے، فرمایا کرتے تھے تم میرے دل کا سرور او رغم وحزن کے زوال کا سبب ہو۔(۱)
شاگردوں کی نظر میں امام صاحب کا مقام
امام صاحب جس محبت، اخلاص اور توجہ سے اپنے تلامذہ کی تربیت کیا کرتے تھے اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھا کرتے تھے، ان کے تلامذہ بھی امام صاحب کااسی درجہ ادب و احترام کیا کرتے تھے اور حد درجہ آپ سے عقیدت ومحبت کیا کرتے تھے، امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ میں اپنے والدین سے پہلے حضرت امام صاحب کے لئے دعا کرتا ہوں،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) محمد ابوزہرہ، ابو حنیفہ حیاتہ وعصرہ ص :۸۹