گھاٹ میں بیٹھا تھا، عین اس وقت قاری یہ آیت پڑھ رہا تھا، کیا ایمان والوں کے لئے وہ وقت قریب نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کے سامنے جھک جائیں(۱) یہ سنتے ہی ان کے دل پر رقت طاری ہوگئی اور اس کا ر مذموم سے توبہ کرلی اور جن لوگوں کا مال لوٹ رکھا تھا انہیں خطوط لکھ لکھ کر مال واپس کردیا، پھر مکہ چلے گئے کچھ مدت وہاں قیام رہا، بعض اولیاء اللہ سے ملاقات کی پھر وہاں سے کوفہ چلے گئے اور امام اعظم ابو حنیفہ سے جاملے اور ایک عرصہ تک ان کی خدمت میں رہ کر علم شریعت وطریقت حاصل کیا۔(۲) تصوف کے باب میں ان کے اقوال کو بڑی اہمیت حاصل ہے، ان کا قول ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے کوئی اس کو نقصان نہیں پہونچا سکتا ہے اور جو غیر اللہ سے ڈرے کوئی اس کو نفع نہیں پہونچا سکتا ہے۔(۳)
بشرحافی
بشر بن الحارث حافی کا شمار انہی بزرگوں میں ہوتا ہے جو مجاہدات میں نرالی شان کے مالک تھے، فضیل بن عیاض کی صحبت سے مستفیض تھے، تصوف کے متعدد مصنفین نے آپ کو امام صاحب کے تلامذہ میں شمار کیا ہے، آپ کا اصل وطن مروتھا؛لیکن بغداد میں سکونت اختیار کی تھی اور وہیں ۲۲۷ھ میں وفات پائی،آپ کی توبہ اور زہد وتقویٰ کا واقعہ یہ ہوا کہ ایک بار راستے میں آپ کو کاغذ کا ایک پرزہ ملا جس پر بسم اللہ ا لرحمن الرحیم لکھا ہوا تھا اور وہ پیروں کے نیچے پڑتا تھا آپ نے اسے ا ٹھالیا اور آپ کے پاس ایک درہم تھا اس سے عطر خریدا اور اس پرزے کو معطر کرکے ا یک دیوار کے شگاف میں رکھ دیا، اسی رات اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا جوا ن سے فرما رہا تھا اے بشر! تو نے مرے نام کو خوشبو دار کیا مجھے اپنے نام کی قسم میں بھی دنیا اور آخرت میں تیرے نام کو خوشبودار کروں گا، اسی و قت تو بہ کی اور زہد کا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) سورۃ الحدید: ۱۶
(۲) گنج مطلوب ص: ۱۵۶
(۳) سیر اعلام النبلاء ترجمہ فضیل بن عیاض ۷؍۳۹۵