طرف سے مکمل دفاع کیا حتی کہ اس حصے کو اس کتاب سے نکال کر اسے حکومت کی طرف سے شائع کرایا گیا؛ لیکن بعد میں کسی مطبع نے اس حصے کے ساتھ بھی اسے شائع کردیا جس پر شیخ بن باز نے بڑے دردمندانہ لہجے میں اپنے تأسف کا اظہار کیا، چنانچھ لکھتے ہیں:
زاد الأمر حتی صار ہناک تألیف تطعن في أبي حنیفۃ وصار یقال ’’أبو حنیفۃ‘‘ ونحو ذلک ہذا لا شک لیس من منہجنا ولیس من طریقۃ علماء الدعوۃ ولا علماء السلف لأننا لا نذکر العلماء إلا بالجمیل إذا اخطؤوا فلا نتابعہم في أخطائہم خاصۃ الأئمۃ ہؤلاء الأربعۃ لأن لہم شأنا ومقاما لا ینکر۔(۱)
بات یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ امام ابو حنیفہ کی طعن پر متعدد کتابیں تصنیف کی گئیں اور کہا جانے لگا ’’ابو حنیفہ‘‘ اور اس طرح کے الفاظ حالانکہ یقینی طو رپر ہمارے منہج اور ہمارے علماء سلف کایہ طریقہ نہیں ہے، اس لئے کہ ہم علماء کا تذکرہ صرف خیر کے ساتھ کرتے ہیں اگر ان لوگوں سے کوئی غلطی ہوجاتی ہے تو ہم ان کی پیروی نہیں کرتے ہیں، خاص طور پر ہم ائمہ ا ربعہ کا تذکرہ ہمیشہ بھلائی اور اچھائی کے ساتھ کرتے ہیں، اس لئے کہ ان لوگوں کا وہ مقام ومرتبہ ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
نواب صدیق حسن خان صاحب(م ۱۳۰۷ھ)
اہل حدیث کے مقتدااور پیشواء میں آپ کا شمار ہوتا ہے،حدیث اور دیگر علوم وفنون میں گہری واقفیت تھی، اردو عربی اور فارسی تینوں میں ان کی تصانیف ہیں۔ امام صاحب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) منقول من شبکۃ سحاب السلفیۃ