شاگردوں کے ساتھ امام صاحب کا معاملہ
علماء ومشائخ کی طرح شاگردوں کے ساتھ بھی آپ کا معاملہ فیاضانہ تھا، امام صاحب ہر طالب علم سے پوشیدہ طور پر اس کے حالات دریافت کرتے،کوئی ضرورت ہوتی تو اس کی تکمیل فرمادیتے جو ان میں بیمار ہوتا یا طالب علموں کے رشتہ دار بیمار ہوتے تو ان کی عیادت کرتے، جن کا انتقال ہوجاتا ان کے جنازے میں حاضر ہوتے، امام صاحب کا عام دستور یہ تھا کہ اگر ان کے پاس کچھ ہدیہ وتحائف آتے تو شاگردوں اور متوسلین میں تقسیم فرمادیتے(۱)یوسف بن خالد سمتی کا بیان ہے:
امام صاحب اپنے طلبہ کی ہر جمعہ دعوت فرمایاکرتے تھے اور طرح طرح کے کھانے پکواتے لیکن کھانے میں طلبہ کے ساتھ شریک نہیں ہوتے، کہتے کہ میں اپنے آپ کو اس لئے الگ کرلیتا ہوں کہ تم لوگ بے تکلفی کے ساتھ کھانا تناول کرسکو۔(۲)
جمعہ کی دعوت کے علاوہ آپ اپنے تلامذہ کی دیگر ضرورتوں کا بھی خیال کرتے تھے، جن طلبہ کو شادی کی ضرورت ہوتی حضرت امام ان کی شادی بھی کرادیتے اور شادی کے مصارف خود ادا کرتے، اسی طرح تہواروں کے موقعوں پر سب کے ساتھ حسنِ سلوک اور ہر ایک کے رتبہ کے مطابق ان کے پاس چیزیں بھیجتے تھے، ان سب پر مستزاد یہ کہ طلبہ کے وظیفے بھی امام صاحب کے یہاں سے جاری تھے، موفق احمد مکی کا بیان ہے:
ہر جماعت کے شاگردوں کو ماہ واروظیفہ بھی حضرت امام کی طرف سے ملتا تھا اور یہ عام حسنِ سلوک کے سوا تھا۔(۳)
انفرادی طور پر جن جن طالب علموں کے ساتھ جو سلوک امام صاحب نے کیا اور بعد میں ان لوگوں نے جو بیان کیا اس کی فہرست طویل ہے،حضرت امام ابو یوسف کا بیان ہے:
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) مناقب ابی حنیفہ ۱؍۲۳۷ (۲) مناقب ابی حنیفہ ۲؍۸۹ (۳) مناقب ابی حنیفہ ۱؍۲۳۹