بصرہ
بصرہ بھی حضرت عمر فاروقؓکے حکم سے آباد ہوا تھا اور وسعت ِعلم اور اشاعت ِحدیث کے اعتبار سے کوفہ کا ہمسر تھا، یہ دونوں شہر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی طرح دارالعلم خیال کیے جاتے تھے، علامہ ذہبی نے اسلام کے دوسرے تیسرے دور میں جن لوگوں کو حاملین حدیث کا لقب دیا ہے اور ان کے مستقل ترجمے لکھے ہیں، اس میں اکثر انہی دونوں شہر کے رہنے والے ہیں،بصرہ امام صاحب کی تحصیل حدیث کی دوسری بڑی درسگاہ تھی جو حسن بصری، شعبہ اورقتادہ کے فیض تعلیم سے مالا مال تھی،اگر چہ حسن بصری ۱۱۰ھ تک زندہ رہے، لیکن امام ابو حنیفہ کا ان سے مستفید ہونا ثابت نہیں ہے، البتہ قتادہ کی شاگردی کا ذکر عام محدثین نے کیا ہے، مولانا شبلی نے عقود الجمان کے حوالے سے لکھا ہے کہ مختلف مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب نے شعبہ سے حدیث روایت کی ہے او رانہوں نے اپنے سامنے ہی فتویٰ وروایت کی اجازت دے دی تھی، شعبہ بڑے رتبے کے محدث تھے، سفیان ثوری نے انہیں فن حدیث میں امیر المؤمنین کہا ہے، عراق میں یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے جرح وتعدیل کے مراتب مقرر کئے، امام شافعی کا قول ہے شعبہ نہ ہوتے توعراق میں حدیث کا رواج نہ ہوتا، شعبہ کو امام صاحب سے ایک خاص ربط تھا، امام صاحب کی عدم موجودگی میں ان کی ذہانت اور خوبی ِفہم کی تعریف کیا کرتے تھے، ایک بار امام صاحب کا تذکرہ ہوا تو فرمایا جس طرح میں جانتا ہوں کہ آفتاب روشن ہے اسی یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ علم اور ابو حنیفہ ہم نشیں ہیں(۱) یحییٰ بن معین جو امام بخاری کے استاذ ہیں ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ امام صاحب کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ فرمایا اسی قدر کافی ہے کہ شعبہ نے ان کو حدیث وروایت کی اجازت دی اور شعبہ آخر شعبہ ہی ہیں(۲) بصرہ کے شیوخ میں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) الصیمری، ابو عبد اللہ حسین بن علی،اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ص:۹، دارالکتب العربی بیروت ۱۹۷۶ء
(۲) تذکرۃ النعمان اردو ترجمہ عقود الجمان ص: ۱۶۴