بڑے بڑے محدثین نے ان کی توثیق کی ہے اور علم حدیث میں ان کی خدمات اور محدثانہ
جلالت شان کا اعتراف کیا ہے،امام بخاری کہتے ہیں ابن مبارک اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم اور محدث ہیں(۱)ابن مہدی کہتے ہیں: ائمہ حدیث چار ہیں: امام مالک، سفیان ثوری، حماد بن زید ،عبد اللہ ابن مبارک اور ابن مہدی نے تو عبد اللہ ابن مبارک کو سفیان ثوری پر بھی فوقیت دی ہے، ابو اسحاق فزاری کہتے ہیں کہ عبد اللہ ابن مبارک امام المسلمین ہیں، ابن حبان کہتے ہیں: اُن میں وہ خصلتیں تھیں جو ان کے زمانے میں روئے زمین پر کسی میں بھی وہ خصلتیں جمع نہ تھیں، ابن عیینہ کہتے ہیں: میں نے حضرات صحابہ کے معاملہ میں غور کیا تو مجھے عبد اللہ ابن مبارک پر ان کی کوئی فضیلت نظر نہیں آئی، مگر یہ کہ حضرات صحابہ کو آپﷺ کے ساتھ صحبت اور جہاد کا شرف حاصل ہے، فضیل بن عیاض کہتے ہیں: ان کے بعد ان کا کوئی مثل پیدا نہیں ہوا، عباس ابن مصعب کہتے ہیں: عبد اللہ ابن مبارک نے، حدیث، فقہ، عربیت، شجاعت، تجارت جیسے مختلف علوم وفنون کو جمع کرلیاتھا۔(۲)
عبد اللہ بن مبارک کے فضل وکمال، زہدو تقویٰ نے اس قدر لوگوں کو مسخر کرلیا تھا کہ بڑے بڑے امراء وسلاطین کو و ہ رتبہ حاصل نہ تھا، ایک دفعہ خلیفہ ہارون رشید کا رقہ آنا ہوا، اسی زمانے میں عبد اللہ بن مبارک بھی رقہ پہونچے ان کے آنے کی خبر مشہور ہوئی تو ہر طرف سے لوگ دوڑے اور اس قدر کش مکش ہوئی کہ لوگوں کی جوتیاں ٹوٹ گئیں، ہزاروں آدمی ساتھ ہوئے اور ہر طرف گرد چھاگئی، ہارون رشید کی ایک حرم نے جو برج کے غرفے سے تماشا دیکھ رہی تھی حیرت زدہ ہوکر پوچھا کہ یہ کیا حال ہے؟ لوگوں نے کہا ’’خراسان کا عالم آیا ہے، جس کا نام عبد اللہ بن مبارک ہے‘‘ بولی حقیقت میں سلطنت اس کا نام ہے،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) بخاری، محمد بن اسماعیل، قرۃ العینین برفع الیدین، باب اذا افتتح التکبیر فی الصلاۃ۱؍۳۵ ڈیجیٹل لائبریری
(۲) الفوائد البہیہ، ص:۱۰۴۔الشیخ حبیب احمد الکیرانوی، مقدمہ اعلاء السنن، ابو حنیفہ واصحابہ المحدثون ۲۱؍ ۹۷، مکتبہ اشرفیہ دیوبند