وکیع بن الجراح کے سامنے کہا گیا کہ: امام صاحب سے اس مسئلہ میں غلطی ہوئی ہے، تو انہوں نے کہا: امام ابو حنیفہؒ غلطی کیسے کرسکتے ہیں، جب کہ ان کے پاس ابویوسف اور زفر جیسے قیاس کے ماہر، یحییٰ بن ابوزائدہ، حفص بن غیاث، حبان اور مندل جیسے حفاظ ِ حدیث اور قاسم بن معین اور امام محمد جیسے لغت ِ عربیت کے جاننے والے، داؤد طائی اور فضیل بن عیاض جیسے زاہد ومتقی حضرات ہیں اگر ابو حنیفہؒ غلطی کریں گے تو کیا یہ لوگ ان کی اصلاح نہ کریں گے؟(۱)
وکیع کے اس بیان سے جہاں تدوین فقہ کی دستوری کمیٹی کے اکابر کی علمی جلالت ِ قدر سامنے آتی ہے اور بحث وتحقیق کا طریقِ کار معلوم ہوتا ہے، وہیں امام صاحبؒ کے ارکانِ شوریٰ کی جامعیت اور آپ کے رفقاء کے بلند مقام کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے، امام صاحب کو تدوین فقہ کے لئے کن کن علوم کے ماہروں کی ضرورت تھی، اس سلسلے میں فقہ اسلامی کے مختلف ابواب ومباحث کو ذہن میں رکھتے ہوئے ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب کا یہ تبصرہ سنیں اور غور کریںکہ یہ کام کس قدر مشکل تھا اور امام صاحب نے کس کامیابی سے ان علوم میں مہارت تامہ رکھنے والوں کو نہ صرف جمع کیا بلکہ سالہا سال تک ان کی علمی اور مادی سرپرستی کرکے امت محمدیہ کو ایک بے مثال مجموعہ قوانین کا تحفہ دیا، ڈاکٹر محمد حمید اللہ لکھتے ہیں:
ایک اور مشکل یہ ہے کہ فقہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ہے اور قانون کے مآخذوں میں قانون کے علاوہ لغت، صرف، نحو،تاریخ وغیرہ ہی نہیں حیوانات، نباتات، بلکہ کیمیا اور طبعیات کی بھی ضرورت پڑتی ہے، قبلہ معلوم کرنا جغرافیہ طبعی پر موقوف ہے، نماز، افطار اور سحری کے اوقات علم ہیئت وغیرہ کے دقیق مسائل پر مبنی ہیں، رمضان کے لئے رؤیت ہلال کو اہمیت ہے اور بادل و غیرہ کی وجہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) اخبار ابی حنیفہ واصحابہ للصیمری ص:۱۵۲، دارالکتب العربی بیروت ۱۹۷۶ء