بعض مرتبہ بعض اراکین امام صاحب کے سامنے ایک دوسرے کی تردید کرتے تو امام صاحب جانبین کے دلائل سن کر واضح فیصلہ فرماتے، علامہ کردریؒ امام صاحب کے نبیرہ اسماعیل بن حماد کے حوالے سے نقل کرتے ہیں:
ایک مرتبہ امام ابو یوسف ،امام ابو حنیفہ کے داہنے جانب بیٹھے تھے اور امام زفر بائیں جانب اور دونوں ایک مسئلہ میں بحث کرنے لگے،جب امام ابو یوسفؒ کو ئی دلیل پیش کرتے تو امام زفر اس کی تردید کردیتے اور جب امام زفر کوئی دلیل پیش کرتے تو امام ابو یوسفؒ اس کی تضعیف کردیتے، یہ مباحثہ ظہر تک جاری رہا، جب ظہر کی اذان ہوئی تو امام ابو حنیفہؒ نے امام زفر کی ران پر ہاتھ مار کر فرمایا: زفر ایسے شہر کی سرداری کی طمع نہ کر جس میں ابویوسف رہتے ہیں اور امام ابو یوسف کے حق میں فیصلہ فرمایا۔(۱)
مشہور تذکرہ نگار موفق نے مجلس وضع قوانین کی یوں تصویر کشی کی ہے:
امام ابو حنیفہ جب بیٹھتے تو ان کے ارد گردان کے اصحاب اور تلامذہ بیٹھ جاتے، جن میں قاسم بن معن عافیہ بن یزید، داؤد طائی، زفر بن ہذیل، اور انہیں کے مرتبے کے لوگ ہوتے، اس کے بعدکسی مسئلے کا ذکر چھیڑا جاتا، پہلے امام کے تلامذہ اپنی ا پنی معلومات کے لحاظ سے بحث کرتے، اور خوب بحث کرتے، یہاں تک کہ ان کی آواز بلند ہوجاتی، جب باتیں بڑھ جاتیں تب آخر میں امام صاحب تقریر شروع کرتے، امام صاحب کی تقریر جس وقت شروع ہوتی لوگ خاموش ہوجاتے اور جب تک امام صاحب تقریر فرماتے رہتے مجلس
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) مناقب ابو حنیفہ للکردری۲؍۳۹۶، دارالکتاب العربی بیروت ۱۹۸۱ء