ہے؛بلکہ واقعات بھی اس پر شاہد عدل ہیں، امام اعمش کے سامنے امام صاحب سے مسئلہ پوچھا گیا تو امام صاحب نے جواب دیا، امام اعمش نے کہا یہ جواب آپ نے کہاں سے دیا، امام صاحب نے اعمش کی ہی روایت کردہ کئی حدیث کو مع سند کے بیان کیا اس پر اعمش نے کہا’’اے ابو حنیفہ بس کرو جن حدیثوں کو میں نے سودن میںبیان کیا ہے تم نے تھوڑی دیر میں بیان کردیا اے فقہاء کی جماعت! ’’تم طبیب ہو اور ہم دوا فروش‘‘(۱)
علامہ صیمری نے ’’اخبار ابی حنیفہ واصحابہ‘‘ میں لکھا ہے’’محمد بن واسع خراسان آئے تو لوگوں نے ان سے فقہ کے مسائل دریافت کئے تو انہوں نے کہا کہ فقہ تو کوفہ کے جوان ابو حنیفہ کا فن ہے، لوگوں نے کہا وہ حدیث نہیں جانتے اس پر عبد اللہ بن مبارک نے کہا تم لوگ یہ کیوں کر کہتے ہو کہ ابو حنیفہ حدیث سے ناواقف ہیں، امام صاحب سے پوچھا گیا کہ رطب کی بیع تمر سے کمی بیشی کے ساتھ جائز ہے یا نہیں تو امام صاحب نے فرمایا جائز ہے لوگوں نے کہا حضرت سعد کی حدیث ہے(جس سے عدم جواز معلوم ہوتا ہے) تو امام صاحب نے فرمایا وہ روایت شاذ ہے، زید بن عیاش کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا ۔ جو شخص حدیث پر اس طرح کی گفتگو کرتا ہو وہ کیسے حدیث سے ناواقف ہوگا‘‘؟(۲)
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب نہ صرف یہ کہ حدیث پر عمل کرتے تھے؛ بلکہ حدیث کی علتوں اور معروف ومنکر وغیرہ سے خوب واقف تھے، اس کی تائید امام ا بویوسفؒ کے واقعہ سے بھی ہوتی ہے، فرماتے ہیں جب امام صاحب کسی مسئلہ پر پختہ رائے قائم کرلیتے تو میں کوفہ میں چکر لگاتا تاکہ اس مسئلہ کی تائید میں کوئی روایت حاصل کرسکوں، بعض مرتبہ میں دو تین حدیثیں امام صاحب کی خدمت میں پیش کرتا تو امام صاحب کہتے ہذا غیر صحیح أو غیر معروف تو میں کہتا یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا حالانکہ یہ حدیث آپ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) اخبار ابی حنیفہ واصحابہ للصیمری ص:۱۳، ا لخیرات الحسان ص:۶۹
(۲) اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ص:۲۱