بہت اہمیت دی گئی ہے اور جو سند حضور سے جس قدر قریب ہوتی ہے وہ اسی درجہ معتبر اور اہمیت کی حامل ہوتی ہے،اس مقدمہ کے پیش نظر امام صاحب کی احادیث کی قدروقیمت کا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اس لئے کہ آپ کی احادیث میں وحدانیات اور ثنائیات ہیں جو کسی بھی محدث کے پاس نظر نہیں آتی ہیں، ’’امام اعظم او رعلم حدیث‘‘ کے مصنف مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی لکھتے ہیں:
ائمہ اربعہ میں چونکہ تابعی ہونے کا شرف امام اعظم کو حاصل ہے اور یہ وہ فخر ہے کہ بقول حافظ ابن حجر عسقلانی امام صاحب کے معاصرین میں سے کسی کو نصیب نہیں ہے، نہ امام اوزاعی کو شام میں، نہ حماد بن زید اور حماد بن سلمہ کو بصرہ میںنہ سفیان ثوری کو کوفہ میں نہ امام مسلم بن خالد کو مکہ میں اور نہ لیث بن سعد کو مصر میں اور اس کے نتیجے میں امام اعظم ابو حنیفہ ائمہ اربعہ میں اس شرف ِخاص میں بھی امتیازی مقام رکھتے ہیں کہ ان کو بارگاہ رسالت سے براہ راست صرف بیک واسطہ تلمذ حاصل ہے، امام صاحب کی ان روایات کو جو آپ نے صحابہ سے سنی ہے احادیات یا وحدان کہتے ہیں، چنانچہ علامہ سخاوی فتح المغیث میں فرماتے ہیں والثنائیات في الموطا للإمام مالک والواحدان في حدیث الإمام أبي حنیفۃ، امام اعظم کے یہ وحدان مندرجہ ذیل صحابہ سے آتے ہیں، حضرت انس بن مالک حضرت عبد اللہ بن حارث بن جز، حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی، حضرت واثلہ بن الاسقع، حضرت عبد اللہ بن انس ، حضرت عائشہ بنت عجرہ، ان روایات کی تعداد چھ ہیں۔(۱)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) مولانامحمد علی صدیقی، امام اعظم او رعلم حدیث ص: ۳۸۰، مکتبہ الحسن، لاہور، ۲۰۰۵ء