کوفہ کے انتہائی بااثر لوگوںمیں شمار ہوتے تھے ،اس لئے حکومت بنو امیہ آپ کو حکومت کا حصہ بنا کر عوام سے ہمدردی حاصل کرنا چاہتی تھی،چنانچہ آپ کو نرمی وگرمی ہر طرح سے مختلف عہدوں کی پیش کش کی گئی ،اس سلسلے میں کو فہ کے گورنر ابن ہبیرہ کو اس پالیسی پر عمل کرنے کا زیادہ موقعہ ملا ،ایک مرتبہ ابن ہبیرہ نے امام صاحب سے عرض کیا ’’شیخ اگرآپ اپنی آمد ورفت کو ہمارے یہاں بڑھادیں تو ہم آپ سے فائدہ اٹھائیں اور ہمیں آپ سے نفع پہونچے ،،امام صاحب نے جواباًارشاد فرمایا ’’تمہارے پاس آکر کیا کرونگا اگر تم مجھے نزدیکی اور قرب عطا کروگے تو فتنہ میں مبتلاکروگے اور اگر دو ر رکھا یا قرب عطا کرنے کے بعد نکال دیا توخواہ مخواہ غم میں مبتلاکروگے ،،اس کے بعد ابن ہبیرہ نے ربیع کے ذریعہ امام صاحب کو گورنر کے بعدسب سے با اختیار وزیر بنائے جانے کی پیش کش کی اور پیغام بھیجا کہ ’’گورنر کی مہر ان کے پاس رہیگی تا کہ کوئی حکم نافذ ہو اور کوئی کاغذ جو حکومت کی طرف سے صادرہو اور خزانہ سے کوئی مال برآمد ہو وہ سب ابوحنیفہ ؒ کی نگرانی میںہو اور ان کے ہاتھ سے نکلے ۔
جب امام صاحب نے دولت بنی امیہ کی اس جلیل منصب کو ٹھکرا دیا تواکابر علماء، داؤدبن ابی ہند ،ابن شبرمہ،ابن ابی لیلی ٰجیسے بڑے بڑے فقہا ء کا ایک وفد امام صاحب کی تفہیم کے لئے حاضر ہوااور سمجھانا شروع کیاکہ ہم لوگ تمہیںخدا کاواسطہ دیتے ہیں ، تم اپنے آپ کو ہلاکت میںمت ڈالو ،ہم لوگ آخر تمہارے بھائی ہیں اور حکومت کے اس تعلق کو ناپسند کرتے ہیں،لیکن کوئی چارہ کار اس وقت قبول کرنے کے سوا نظر نہیں آتا؛لیکن امام صاحب ترک موالات کا فیصلہ کر چکے تھے ، اس لئے ان اکابر علماء کی نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوا ، اور امام صاحب نے اس منصب کو قبول کرنے سے انکار کردیا،ابن ہبیرہ نے امام صاحب کوپندرہ دن کے لئے جیل بھیج دیا اور وہاں بھی طمع ولالچ اور جاہ ومنصب کی پیش کش ہوتی