رہے ، عباسی حکمراںمنصور کے عہد میںامام صاحب کوفہ آئے ،بنو امیہ کے عہد میںحضرت زین العابدین کے صاحبزادے حضرت زیدبن علی الشہید (م۱۲۲ھ)نے کوفہ میں خروج کیا ، ان کے متعلق امام صاحب نے فتوی دیا ’’حضرت زید کا اس وقت اٹھ کھڑا ہو نا رسول اللہ ﷺکی بدر میں تشریف آوری کے مشابہ ہے ،،گوچندوجوہات کی بنا پر عملا امام صاحب، حضرت زید شہید کے ساتھ جہاد میں شریک نہ ہوئے، لیکن آپ نے اس جہاد کے لئے کثیر رقم بھی عنایت فرمائی۔
منصور حضرت زید شہید کی تحریک میںامام کی اس شرکت سے یقینا وا قف تھا،اور کو فہ میں امام صاحب کے اثر ورسوخ کو اپنی آنکھوں دیکھ رہا تھا ،اس لئے سابقہ فرماںرواؤںکی طرح منصور نے امام صاحب کو اپنی حکومت کا حصہ بنانا ضروری خیال کیا،چنانچہ منصور نے جب بغداد کی تعمیرکا فیصلہ کیا تو اس نے علماء ،فقہاء، مہندس ،انجنئر،اور ارباب فضل و کمال کو جمع کیا،اس میں امام صاحب بالخصوص بلائے گئے اور ناظم تعمیرات کی حیثیت سے امام صاحب کا تقرر ہوا ،امام صاحب نے ابتداء منصور کے حکم کی مخالفت کو مناسب خیال نہ کیا اور جز وقتی طور پر اس عہدہ کو قبول کرکے منصور کے قریب ہوگئے ،منصور بڑا مدبر اور سیّاس تھا،اس نے دھیرے دھیرے امام صاحب کو اپنی گرفت میں کرنے کی کو شش کی ، چناچہ امام صاحب کی خدمات سے خوشی ظاہر کرکے دس ہزار کا انعام یہ کہتے ہوئے پیش کیا کہ میری خواہش ہے کہ آپ یہ رقم قبول فرمالیں،امام صاحب نے کسی حیلے کے ذریعہ رقم قبول کرنے سے معذرت کردی،اس لئے کہ امام صاحب جانتے تھے کہ حکومت کے لقمۂ تر ہضم کرلینے کے بعد حکومت کے خلاف زبان استعمال کرنے کی جرأت ختم ہوجاتی ہے، گویایہ انعام یا تحفہ نہیں؛بلکہ زبان بندی کی رشوت ہے، امام صاحب کی مفکرانہ فہم اور مدبرانہ صلاحیت اس سے اچھی طرح واقف تھی۔