گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
آپ ان سے بڑے بڑے گناہوں کے چھوڑنے پر عہد لیجیے، بیعت لیجیے کہ وہ شرک نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی وغیرہ۔ آگے اللہ ربّ العزّت نے فرمایا: فَبَايِعْهُنَّ ترجمہ: ’’تو تم اُن کو بیعت کرلیا کرو‘‘۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ بیعتِ اسلام کے بعد بھی کسی بیعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح جہاد کے موقع پر بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے بھی بیعت لی گئی۔ اس کی سب سے بڑی مثال بیعتِ رضوان ہے۔ اس کے بعد بیعتِ ہجرت لی گئی۔ اب ہم جس بیعت کی بات کر رہے ہیں وہ بیعتِ توبہ اور بیعتِ طریقت ہے۔بیعتِ توبہ اُمت کی تعلیم کے لیے نبیﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ سے بعض موقعوں پر بعض گناہوں کے نہ کرنے پر بیعت لی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عُبَادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے: ’’ہم رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ نے ہم سے فرمایا کہ تم میرے ہاتھ پر بیعت کرو کہ تم شرک نہیں کرو گے، چوری نہیں کرو گے (آگے لمبی حدیث ہے) پھر آپﷺ نے سورۃ الممتحنہ کی آخر سے پہلے والی آیت تلاوت فرمائی‘‘۔ (متفق علیہ) دیکھیے! اس وقت نبی ﷺ کے پاس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ کی جماعت موجود تھی۔ یہ وہ حضرات تھے جو بیعتِ اسلام سے مشرّف ہوچکے تھے، ان کے دل ایمان کی دولت سے مالا مال تھے۔ سرکارِ دوعالم نبیd کی نظرِ رحمت نے ان کو روحانی ترقی کی اُن بلندیوں پر پہنچا دیا تھا کہ اُمت کے تمام اولیائے کرام مل کر بھی ہرگز اس مرتبے تک نہیں پہنچ سکتے۔