گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
سُبْحٰنَ الَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا (یٰسٓ: 36) ترجمہ: ’’پاک ہے وہ ذات جس نے ہر چیز کے جوڑے جوڑے پیدا کیے ہیں‘‘۔ چناں چہ انسانوں میں اللہ ربّ العزّت نے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا ساتھی بنایا ہے۔حضرت حوّا رضی اللہ عنھا کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی قدرتِ کاملہ سے پیدا فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام جنت کی بہترین نعمتوں میں تنہا تھے۔ جنت میں رہتے اور اس کی نعمتوں سے مستفید ہوتے تھے۔ اللہ کا قرب بھی حاصل تھا، لیکن اس کے باوجود بھی تنہائی کا احساس تھا۔ پھر اللہ ربّ العزّت نے اُن کی تنہائی دور کرنے کے لیے اماں حوّا رضی اللہ عنھا کو پیدا کیا جس سے اُن کی زندگی میں ایک نئی بہار آگئی اور جنت کے اندر خوش وخرّم رہنے لگے۔ معلوم یہ ہوا کہ انسان کے پاس اگر جنت جیسی نعمت بھی ہو اور خود تنہا ہو تو زندگی ادھوری ہے، اسے ایک ساتھی کی ضرورت ہے۔ جب میاں بیوی ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور ایک دوسرے کی قدر کرتے ہیں تو پھر زندگی کا مزا کچھ اور ہوتا ہے۔ شریعت میں میاں بیوی کا اکھٹے ہوکر ایک دوسرے سے ملنا یہ اللہ کے یہاں عبادت ہے۔ اسلام کی خوبی دیکھیے! حُسن دیکھیے! حالا ں کہ یہ انسان کی معاشرتی ضرورت بھی ہے اور جسمانی ضرورت بھی ہے۔ جب وہ اپنی اس معاشرتی وجسمانی ضرورت کو شریعت کے مطابق پورا کرتا ہے تو اس پر اسے عبادت کا ثواب ملتا ہے، اور ایمان کی تکمیل کی بشارت ملتی ہے۔فطرتِ انسانی کی ضرورت اسلام دینِ فطرت ہے۔ انسانی زندگی کے جو تقاضے ہیں اور جو ضروریات ہیں، اللہ