گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
بالوں میں کنگھی کرنا حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اپنی مؤطا میں بیان کرتے ہیں کہ یحیٰ بن سعید رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے سر کے بال بڑے تھے۔ تو نبی ﷺ سے انہوں نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! میرے سے کے بال بڑٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍے ہیں، کیا میں ان میں کنگھی کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جی ہاں (کنگھی کرو) اور ان کا خیال رکھو‘‘۔ اس ارشاد کو سننے کے بعد حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ دن میں دوبارہ تیل لگاتے تھے اور فرمایا کرتے کہ مجھے نبی ﷺ نے ان کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ایک روایت میں کنگھی کرنے سے منع بھی کیا گیا۔ اس کے بارے میں علماء فرماتے ہیں کہ فیشن کی نیت سے کنگھی کرنا منع ہے۔ فیشن کی نیت سے کنگھی کرنے کو پسند نہیں کیا گیا۔ ہاں! میرے بال صاف رہیں، صحیح رہیں ان میں جویں نہ پڑیں اور سنت کے مطابق رہیں۔ اس کے حساب سے کنگھی کرنا یہ سنت بن جائے گا اور ثواب ملے گا۔ حدیث کے اندر آتا ہے کہ سادگی ایمان کی علامت ہے۔ ضرورت کے وقت کنگھی کرنا یہ جائز بھی ہے، اچھی بات بھی ہے اور اس کا حکم بھی دیا گیا لیکن فیشن کی نیت سے کنگھی کرنے کو منع قرار دیا گیا۔ اسی کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ چیز ٹھیک نہیں کہ انسان ہر وقت بالوں میں ہی پڑا رہے کہ میرے بال ایسے ہوں۔ میں فلاں جِیل لگاؤں، یہ کروں اور وہ کروں، اس چیز کو شریعت نے ناپسند کیا ہے۔ تو اگر ہم بالوں میں کنگھی کریں ضرورت کے تحت، اور تیل لگائیں خوبصورتی کے لیے نہیں ضرورت کے لیے کہ اس سے دماغ کو تقویت ملے گی۔اس نیت کے ساتھ تیل لگائیے تو روز لگائیں، دن میں دو مرتبہ لگائیں کوئی مسئلہ نہیں، لیکن صرف بالوں کو بنانا اور سنوارنا کہ لوگوں کو اچھے