گلدستہ سنت جلد نمبر 3 |
صلاحی ب |
|
سے روزہ نہ رکھتے، دعوت کا اہتمام کرتے، ساتھیوں کو بلاتے ملاقات بھی ہوجاتی اور کھانا پینا بھی ہوجاتا۔ یہ تینوں روایات صحیح بخاری میں ’’بَابُ الطَّعَامِ عِنْدَ الْقُدُوْمِ‘‘ میں ہیں۔آسان عمل کا مشکل بن جانا اُس زمانے کی دعوت ہمارے زمانے کی دعوتوں سے بڑی مختلف تھی۔ دعوت اصل میں ایک ملاقات ہوتی تھی۔ اس میں چند کھجوریں رکھ دیں تو وہ دعوت ہوگئی۔ کھجور گھر میں نہیں ہے روٹی کا سوکھا ٹکڑا موجود ہے وہ رکھ دیا، دعوت ہوگئی۔ اور اگر صرف پانی موجود ہے وہ پلا دیا، دعوت ہوگئی۔ آج ہی گھروالوں کو کہہ کر دیکھ لیں کہ جی! کل میں نے 15 لوگوں کو گھر پر دی ہے، پھر دیکھیں اہلیہ صاحبہ کا موڈ اور باقی گھر والوں کا رویہ۔ ہم نے دعوت کو مشکل اور مصیبت بنا لیا ہے۔ آنے والے کا بھی معاملہ یہی ہے کہ جب تک چار چیزیں سامنے نہ ہوں تو سمجھے گا کہ میرا اِکرام ہی نہیں ہوا۔ ہر آدمی اپنی سہولت اور آسانی کے مطابق دعوت کرے تو کافی ہے۔ اصل ملاقات مقصود ہوا کرتی ہے، دین کی بات مقصود ہوا کرتی ہے، طعام مقصود نہیں ہوتا۔ ایک دوسرے کی خیر خیریت دریافت کی جاتی ہے۔ دعائیں لی اور دی جاتی ہیں۔ اور بقول کسی کے یہ تو پکی بات ہے کہ صحابہ کرام جب ایک دوسرے سے ملتے تھے تو آخرت کی یاد دلایا کرتے تھے، تلقین کرتے تھے، وصیت کیا کرتے تھے، سورۃ العصر سنایا کرتے تھے، ایک دوسرے سے ملتے تو خیر خیریت پوچھتے۔ بلکہ اب سے تیس چالیس سال پہلے جب لوگ ملاقات کرتے تھے تو بیوی بچوں کا حال احوال، کاروبار کا پوچھا کرتے تھے۔ اور آج گھر میں آتے ہیں تو سب سے پہلے وائی فائی کا پاس ورڈ پوچھتے ہیں۔ اگر ہم اپنی شادیوں اور دعوتوں کا تصور کریں تو پریشانی پیدا ہوتی ہے کہ جی! دعوت